القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Thursday, August 27, 2009

دوسرا کھلا خط بنام مرزا مسرور احمد . حصہ سوئم

اس طرح وقتی طور پر مخالفت کو کم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ، لیکن علمائے حق کے خدشات صحیح

نکلتے ہیں کہ ان صاحب(یعنی مرزا غلام احمد صاحب )کا مالیخولیا و مراق جیسے جیسے ترقی کرےگا،اسی

طرح ان کے دعویٰ جات بھی بڑھیں گے۔

مرزا صاحب کو مراق تھا یا نہیں؟میرے خیال میں یہ حوالہ کافی ہے! " ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے

مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے ۔ بعض اوقات

آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے۔{ سیرت المہدی حصہ دوئم، صفحہ 55، از مرزا بشیر احمد ایم اے } ۔

اور مراق کیا چیز ہے یہ حوالہ میرے خیال میں کافی رہے گا " ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو

جائے کہ اسکو ہسٹریا،مالیخولیا،مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردیدکے لئے پھر کسی اور ضرب

کی ضرورت نہیں رہتی، کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کوبیخ و بن سے

اکھاڑ دیتی ہے" مضمون ڈاکٹر شاہنواز صاحب قادیانی، مندرجہ ( رسالہ ریویو آف ریلیجنز، قادیان ، صفحہ ۶ و۷،بابت ماہ اگست 1926۔ بحوالہ قادیانی مذہب صفحہ 145) ۔

اب دیکھئے کہ مرزا صاحب کس طرح اپنے دعووں میں آگے بڑھتے بڑھتے نہ صرف رسول کریم کے مقام تک پہنچتے ہیں (نعوذباللہ)، بلکہ انکو پرے ہٹانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

(۱) "میرا نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ نبی بھی ہو جائے ..... اور ان نشانوں کا نام معجزہ رکھنا نہیں چاہتا بلکہ ہمارے مذہب کی رو سے ان نشانوں کا نام کرامت ہے جو اللہ و رسول کی پیروی سے دئے جاتے ہیں"۔ (جنگ مقدس ۔ر،خ ۔ج 6 /ص156)

(۲) "یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعویٰ میں نبی کا نام سن کر دھوکا کھا تے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کادعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانے میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے۔لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں"۔( حقیقۃ الوحی حاشیہ، ر۔ خ، ج ۲۲، ص154 )

(۳) "یہ سچ ہے کہ وہ الہام جو خدا نے اس بندے پر نازل فرمایا اس میں اس بندہ کی نسبت نبی اور رسول اور مرسل کے لفظ بکثرت موجود ہیں سو یہ حقیقی معنوں پر محمول نہیں ....... مگر مجازی معنوں کی رو سے خدا کا اختیار ہے کہ کسی ملہم کو نبی کے لفظ سے یا رسول کے لفظ سے یاد کرے" ۔( سراج منیر، ر ۔خ ج12 ص 5 )

اب جب ہر طرف سے شور اٹھا توکیا وضاحت پیش کی جا رہی ہے۔

(۴) " نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدائے تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے" ۔( ازالہ اوہام،ر۔ خ، ج۳، ص 320)

(۵) محدث جو مرسلین میں سے امتی بھی ہوتا ہے اور ناقص طور پر نبی بھی ........... وہ اگرچہ کامل طور پر امتی ہے مگر ایک وجہ سے نبی بھی ہوتا ہے اور محدث کے لئے ضرور ہے کہ وہ کسی نبی کا مثیل ہو اور خدا تعالےٰ کے نزدیک وہی نام پاوے جو اس نبی کا نام ہے"۔ ( ازالہ اوہام، ر۔ خ، ج۳، ص 407)

(۶) " یہ عاجز خدا تعالےٰ کی طرف سے اس امت کے لئے محدث ہو کر آیا ہے ............ اور بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہو کر آتا ہے اور انبیاء کی طرح اس پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں بآواز بلند ظاہر کرے اور اس سے انکار کرنے والا ایک حد تک مستوجب سزا ٹہرتا ہے"۔( توضیح مرام، ر۔خ ج۳،ص 60)

(۷) مسیح موعود جو آنے والا ہے، اسکی علامت یہ لکھی ہے کہ وہ نبی اللہ ہو گا، یعنی خدا تعالےٰ سے وحی پانے والا۔ لیکن اس جگہ نبوت تامہ کاملہ مراد نہیں ....... سو یہ نعمت خاص طور پر اس عاجز کو دی گئی ہے"۔ ( ازالہ اوہام،ر۔خ،ج۳/ص478)

۔

اب ہوتا کیا ہے ان بے سروپا دعووں کی وجہ سے مخالفت بے انتہا بڑھ جاتی ہے، اس کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے لئے ، ۲ اکتوبر 1891 کو ایک عاجز مسافر کا اشتہار کے نام سے ایک اشتہار شائع کرتے ہیں

(۸) " میں نہ نبوت کا مدعی ہوں۔ اور نہ معجزات اور ملائک اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر بلکہ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ ہے، ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی رُو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافرجانتا ہوں " ( مجموعہ اشتہارات ج۱/ ص ۲۳۰) ۔

اسکے بعد۳ فروری 1892 کوعلمائے کرام سے بحث کے دوران گواہان کے دستخطوں سے تحریری راضی نامہ کرتے ہیں، اس میں لکھتے ہیں

(۹) " تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ " فتح اسلام " و" توضیح المرام " و" ازالہ اوہام" میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے، یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کئے گئے ہیں۔ ورنہ حاشا و کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہر گز دعویٰ نہیں ............ سو دوسرا پیرایہ یہ ہے کہ بجائے لفظ نبی کے محدث کا لفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اور اس کویعنی لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال فرما لیں"۔( مجموعہ اشتہارات، ج۱، ص ۳۱۲ و ۳۱۳) ۔

اسی طرح کبھی اقرار ، کبھی انکار، کبھی تاویلات کے ذریعہ قدم آگے بڑھاتے بڑھاتے آخر اس دعوے پر آ پہنچے کہ :۔

(۱۰) " سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا"۔ ( دافع البلاء،ر۔خ، ج 18/ص ۲۳۱)

(۱۱) " تو بھی ایک رسول ہے جیسا کہ فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا گیا تھا" (ملفوظات،ج۸/ص424 ) ۔

لیکن مرزا غلام احمد صاحب کی نبی و رسول بننے کے بعد بھی تشفی نہیں ہوتی بلکہ اب اپنے تاج نبوت پر مزید مینا کاری کرتے ہوئے صاحب الشریعت بن جاتے ہیں۔

(۱۲) شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہو گیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں ، کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی" ( اربعین4، ر۔خ، ج17/ص435) ۔

لیکن ابھی بھی انکا مالیخولیا مرزا صاحب کو چین نہیں لینے دیتا ، کہ ابھی جہاں اور بھی ہیں کہ مصداق اب مزید آگے بڑھنے کے لئے کس ہوشیاری سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انکے مقام سے ہٹا کر خود بیٹھنے کی تیاری ہے۔

(۱۳) " اب اسم محمد کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں، یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہو چکا۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہو کر میں ہوں"۔( اربعین 4 ، ر۔ خ، ج 17، ص445 و 446) ۔ اب ہوتا کیا ہے کہ بندہ سوچتا ہے کہ شاید بزعم خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو لے ہی چکے ہیں، نعوذباللہ۔ اب تو مرزا صاحب یہاں رک جائیں گے، مگر وہ مالیخولیا اور مراق ہی کیا جو رکنے دے ، اب رسول کریم سے اپنامقام کیسے بڑھایا جاتا ہے ؟فرماتے ہیں

(۱۴) " آسمان سے بہت سے تخت اترے پر میرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا" ۔( تذکرہ صفحہ 638) ۔

لیکن کیا یہاں بھی قیام کرتے ہیں یا نہیں؟ نہیں جناب ابھی ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ، فرماتے ہیں۔

(۱۵) " اسمع ولدی، اے میرے بیٹے سن" ،( البشریٰ جلد اول صفحہ 49 ) ۔ لیکن وہ اولولعزمی ہی کیا ہوئی جو کہیں چین لینے دے ، اسی طرح بغیر پلٹ کر دیکھے منازل طے کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

(۱۶) میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں ......... سو میں نے پہلے توآسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا۔( کتاب البریہ، ر۔خ،ج ۱۳/ص ۱۰۳ تا ۱۰۵) ۔

No comments:

Post a Comment

بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔