القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Monday, June 15, 2009

مرزا صاحب اور حدیث - حصہ دوم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

اور دوسری جگہ بیان کرتے ہیں کہ’’یاد رکھو کہ جو شخص احادیث کو ردی کی طرح پھینک دیتا ہے وہ ہر گز ہر گز مومن نہیں ہو سکتا کیونکہ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے کہ جو بغیر مدد احادیث ادھورا رہ جاتا ہے۔ جو کہتا ہے کہ مجھے احادیث کی ضرورت نہیں وہ ہر گز مومن نہیں ہو سکتا۔ اسے ایک دن قرآن کو بھی چھوڑنا پڑیگا‘‘۔ ملفوظات/ ج ۱۰ / ص ۲۶۵۔
اس موقف کے بعد مرزا صاحب اور انکی جماعت اب ان حدیثوں کی تاویلیں اور جرح کیوں کرتی ہے؟کیا اس لئے کہ اسکے بغیر خود ساختہ نبوت کا کوئی راستہ نظر نہ آیا ؟اب مرزا صاحب اپنے مقاصد کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ اوپر دئے گئے دونوں حوالوں کو ذہن میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کتنی فنکاری سے احادیث کو قرآن کریم کا مقابل قرار دیکر احادیث کے وجود کے بارے میں سوال کھڑے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
٭ مرزا صاحب نے ایک اور آسان نسخہ ڈھونڈا کہ جو انکے دعوے ہیں یعنی خروج دجال اور نزول عیسیٰ کی علامات و آثار ، نہایت تفصیل کے ساتھ احادیث میں موجود ہیں اور انکے پاس ان سے بھاگنے کی کوئی صورت نہیں ، یا پھر مسلمانوں کی نظر میں منکر حدیث بنیں ، اس سے بچنے کے لئے انکے ذہن نے اسکا پہلا حل تو یہ ڈھونڈا کہ قرآن اور احادیث کے تعلق کو فنکاری کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل لا کر احادیث کی ضرورت اور عدم ضرورت کے سوالات پیدا کئے جائیں، میری اس بات کی تصدیق مرزا صاحب کا یہ ارشاد کر رہا ہے۔ ’’کیاآ نحضرت ؐ کی ان لوگوں کو وصیت تھی کہ میرے بعد بخاری کو ماننا؟ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تو یہ تھی کہ کتاب اللہ کافی ہے۔ ہم قرآن کے بارے میں پوچھے جائیں گے نہ کہ زید اور بکر کے جمع کردہ سرمایہ کے بارے میں یہ سوال ہم سے نہ ہو گا کہ تم صحاح سِتہ وغیرہ پر ایمان کیوں نہ لائے۔ پوچھا تو یہ جائیگا کہ قرآن پر ایمان کیوں نہ لائے۔
بحث کے قواعد ہمیشہ یاد رکھو۔ اول قواعد مرتب ہوں ، پھر سوال مرتب ہوں، کتاب اللہ کو مقدم رکھا جائے۔ احادیث ان کے (کن کے ؟۔ناقل)اقرار کے نموجب خود ظنیات ہیں۔ یعنی صدق اور کذب کا ان میں احتمال ہے۔
اسکے یہ معنی ہیں کہ ممکن ہے سچ ہو ،اور ممکن ہے کہ جھوٹ ہو۔ لیکن قرآن شریف ایسے احتمالات سے پاک ہے۔آنحضرت ؐ کی زندگی قرآن شریف تک ہی ہے۔ پھر آپ فوت ہو گئے۔ اگر یہ احادیث صحیح ہوتیں اور مدار ان پر ہوتا تو آنحضرت ؐ فرما جاتے کہ میں نے حدیث جمع نہیں کیں۔ فلاں فلاں آوے گا تو جمع کریگا تم اُن کو ماننا‘‘۔ ملفوظات /ج ۴ / ص ۱۵۱۔ چونکہ مرزا صاحب کو یقین تھا کہ یہ عذر کافی نہیں ہو گا دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا کہ احادیث کے ایک بہت بڑے حصہ کے متعلق شکوک ذہنوں میں ڈالنا شروع کر رہے ہیں :

مرزا صاحب اور حدیث ۔ حصہ اول

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

مذہب اسلام میں احکامات اور انکی تشریح کے لئے قرآن کریم کے بعد کتب احادیث کی اہمیت سے مسلمان تو کیا کافروں کو بھی انکار نہیں۔ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ختم نبوت پر جو ڈاکہ ڈالا، عقائد کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا اور اپنے آپ کو نبی قرار دے لیا،
اسکے جواز ڈھونڈنے میں مرزا صاحب نے نہ صرف پہلی مذہبی کتب پر بلکہ قرآن کریم پربھی دست درازیاں کیں، تحریف کی، جھوٹ باندھے اور من مانے تراجم کئے، اسی طرح اپنی خانہ ساز نبوت کو بحق ثابت کرنے کے لئے مرزا صاحب نے انتہائی بے شرمی کے ساتھ احادیث پر ، اسکے بیان کرنے والوں پر بھی اپنی چیرہ دستیوں کا ہاتھ دراز کیا، اور جس حدیث کو انہوں نے چاہا رد کیا چاہے وہ ثقہ ترین احادیث میں سے ہو ، اور جس حدیث کو چاہا ، بطور دلیل کے پیش کر دیا چاہے وہ کتنی ضعیف ہی کیوں نہ ہو اور اس حدیث کے ضعیف ہونے کے کتنے ہی زبردست شواہد ہوں، جیسا کہ فرماتے ہیں۔
٭ ’’تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں، جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں۔ اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں‘‘۔ اعجاز احمدی،رخ ص۱۴۰/ج۱۹۔
یہ تو اقرار کر رہے ہیں لیکن بات صرف یہاں تک ہی نہیں رہتی بلکہ کئی احادیث کے من مانے ترجمے کئے اور جو باتیں احادیث میں نہیں تھیں وہ بھی احادیث سے منسوب کر دیں، اور کئی احادیث کے مطالب کو اپنی من مانی تاویلات کے بنے ہوئے جال میں دھکیل دیا۔ بعض حدیثوں کو بیان کرتے ہوئے دانستہ بہت سی باتوں کو چھوڑ گئے اور کچھ کو اس طرح بیان کیا کہ ایک دو سطرحدیث کی ساتھ میں اپنا تبصرہ اس طرح گڈ مڈ کیا کہ اس طرح ان کو اپنے من معنی پہنادئے اور ان کوپیش کر دیا اور باقی کی حدیث کو گول کر گئے ۔غرضیکہ جو بھی ایک جھوٹا مدعی نبوت قران ، حدیث اور سنت کے ساتھ کر سکتا ہے نہ صرف مرزا صاحب نے بے دریغ کیا بلکہ آج تک کے آئمہ تلبیس میں وہ اس باب میں بھی ان تما م جھوٹے نبیوں کے سر خیل ثابت ہوئے بلکہ خاتم الآئمہ تلبیس ہوئے۔
مرزا صاحب کی احادیث پر چیرہ دستیاں تو بہت ہیں مگر خاکسار صرف چند ایک مثالوں پر ہی قناعت کریگا، کیونکہ مقصد اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ جب انسان اپنی ذات کو جھوٹے نبی کی ذات میں ڈھال لیتا ہے تو کہاں تک جھوٹ کی نجاست میں منہ مارتا ہے، اور جھوٹ کے طومار وں سے خشک پتوں کے ڈھیر وں کی طرح کئی کئی ڈھیر لگا دیتا ہے، لیکن سچائی کہ ایک جھونکے سے ہی یہ ڈھیراڑنے لگتے ہیں اور جھوٹ کی لاش کو ننگا کر دیتے ہیں اسطرح حقیقت جاننے والوں کا سچائی پر یقین اور پختہ ہوتا ہے ۔لیکن اگر مرزا جی کی ہر ایک چیرہ دستی کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو میرے خیال میں کئی ایک ضخیم کتابیں بھی ناکافی ہو نگی، اس لئے اس آرٹیکل کو دیگ میں سے چاول کے ایک دانے کے طور پر ہی قبول کریں۔
احادیث کے بارے میں مرزا صاحب کی مختلف آراء:۔
شروع شروع میں جب مرزا صاحب کمپنی کی مشہوری کر رہے تھے، تاکہ نبوت کے آئندہ منصوبوں کی راہ ہموار ہو جائے، کیونکہ اس وقت مرزا صاحب کو بعض نامور اہلحدیث علماء کا تعاون بھی حاصل ہونے کی امید تھی اس وقت مرزا صاحب کا اسلام کے مطابق تسلیم شدہ اصول:
٭
’’ حدیثوں کا وہ دوسرا حصہ جو تعامل کے سلسلہ میں آگیا اور کروڑہا مخلوق ابتدا سے اس پر اپنے عملی طریق سے محافظ اور قائم چلی آئی ہے اس کو ظنی اور شکی کیوں کر کہا جائے؟ ایک دنیا کا مسلسل تعامل جو بیٹوں سے باپوں تک، اور باپوں سے دادوں تک، اور دادوں سے پڑدادوں تک بدیہہ طور پر مشہور ہو گیا، اور اپنے اصل مبدا تک اسکے آثار اور انوار نظر آ گئے اسمیں تو ایک ذرہ گنجائش نہیں رہ سکتی، اور بغیر اسکے انسان کو کچھ نہیں بن پڑتا کہ ایسے مسلسل عمل درآمد کو اول درجے کے یقینیات میں سے یقین کرے، پھر جبکہ آئمہ حدیث نے اس سلسلہ تعامل کےساتھ ایک اور سلسلہ قائم کیا اور امور تعاملی کااسناد ، راستگو اور متدین راویوں کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا تو پھربھی اس پر جرح کرنا درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے جنکو بصیرت ایمانی اور عقل انسانی کا کچھ بھی حصہ نہیں ملا‘‘، شہادت القرآن،ر خ،ج۶/ ص ۳۰۴ ۔

Tuesday, June 9, 2009

قادیانی خلیفہ مرزا مسرور اور لعنت اللہ علیٰ الکاذِ بین - حصہ دوم

تحریر و تحقیق : مجاہدِ ختم بنوت شیخ راحیل احمد مرحوم

کیا مرزا مسرور صاحب اپنے کو دنیا میں سب سے بہتر اور اپنی جماعت کو بہتر مسلمان نہیں سمجھتے اور کہتے؟

کیونکہ بانی جماعت نے اپنی جماعت کو نہ صرف بہتر مسلمان قرار دیا ہے بلکہ اپنے کو سب نبیوں سے افضل قرار دیا ہے اور صرف اپنے” مذہب“ کو عزت والاکہا ہے کہ” وہ دن آتے ہیں، بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائیگا“ ۔اور انکے پیشرو و الہامی مصلح موعودفرماتے ہیں،” اور جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں، میں نے بھی بارہا بتایا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی حیثیت دنیا کے تمام بادشاہوں اور شہنشاہوں سے زیادہ ہے۔ لیکن اگر دین کا معاملہ آئے گا تو پھر ان بادشاہوں کو ہماری اطاعت کرنی ہو گی“۔ کیا یہ بھی ڈینش حکام کو بتایا؟
جماعت احمدیہ اپنے بانی کی تعلیم کو پھیلاتے ہوئے اکثر یہ پروپیگنڈہ کرتی ہے کہ اب جہاد کو خدا کے نبی اور رسول نے، خدا سے الہام/ وحی پا کر منسوخ کر دیا ہے۔ اب دین کے لئے تلوار/ بندوق کے جہاد کی ضرورت نہیں رہی۔جیسے بانی جماعت احمدیہ اپنی ایک نظم میں کہتے ہیں” اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال ۔ دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال“۔
نبوت کے دعاوی کو اس جگہ نظر انداز کرتے ہوئے ہمارے سوال یہ ہیں
•کیا مرزا مسرور صاحب جہاد کی منسوخی کی وحی کے الفاظ بتا سکتے ہیں؟ کس زبان میں، کب نازل ہوئی ؟
◦جس جہاد کو مرزا صاحب اور انکی ذریت حرام اور منسوخ قرار دے رہی ہے وہ ہے کہاں اور تھا کہاں؟ حرام تو اسکو قرار دیا جاتا ہے جس پر عمل ہو رہا ہو، اور جب مرزا صاحب جہاد کو حرام قرار دے رہے تھے تو اسوقت جہاد کہاں ہو رہاتھا؟کون کر رہا تھا، اسوقت کی حکومت کے آنے سے ہر طرف امن ہو گیا تھا ، اور اسی وجہ سے بقول مرزا صاحب کے ، وہ انگریز حکومت کو محسن سمجھ کر اسکی حمایت اور تعریف کررہے تھے اور اسکی سیاسی مخالفت بھی کرنے والے کو حرامی قرار دے رہے تھے۔
◦دوسرے منسوخ اس حکم کو کیا جاتا ہے جو نافذ ہو، اور اسلام میںدین کے لئے قتل کرنا ، حملے کرنا، جبر سے کسی کا عقیدہ بدلنے کی اجازت ہی نہیں۔ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ ” لا اکراہ فی الدین۔ یعنی دین میں کوئی جبر نہیں۔ تو اب مرزا مسرور صاحب فرمائیں کہ انکے پردادا نے کس کے حکم کو اور کس چیز کو منسوخ کیا ہے؟اسلام میںتو انکے پر دادا کے تصوراتی جہاد ( دین کے لئے لڑنے) کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
◦دین کے لئے لڑنے کی ترغیب اور تربیت تو جماعت احمدیہ ایک پیدائشی احمدی کے کان میں اسکی پیدائش سے ہی ڈالنا شروع کرتی ہے اور پھر مرنے تک ہر ذیلی تنظیم کے ہر اجلاس میںاسکو یہ عہد دہرانا پڑتا ہے” میں خلافت احمدیہ کو قائم رکھنے کی خاطر اپنی جان، مال عزت، غرضیکہ ہر شے ہر وقت قربان کرنے کے لئے ہر دم تیار رہوں گا“ اب کیا مرزا مسرور صاحب فرمائیں گے کہ کیا یہ” دین کے لئے جان“ بغیر لڑنے کے کیسے دی جائیگی؟ اسکا مطلب یہ ہے کہ ایک چور اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے دوسروں کی طرف انگلی اٹھا اٹھا کر انکو چور کہہ رہا ہے؟
◦مرزا مسرور صاحب ! ا سلام نے کس جہاد کا حکم یا اجازت دی ہے؟” قرآن کریم صاف کہتا ہے کہ تمہیں کسی پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں بلکہ جب تمہارے ملک ، تمہاری املاک، تمہاری جانوں پر حملہ ہو، یا لڑائی کے ذریعہ تمہیں اپنے دین پر عمل کرنے سے روکا جائے تو اسکے خلاف لڑو اسوقت تک کہ جب تک تم سے خطرہ دور نہ ہوجائے یا تم شہید نہ ہو جائو۔اب مجھے بتائیں کہ اس جہاد کو منسوخ کیا ہے مرزا صاحب نے، تو پھر احمدی ہر ملک میں جماعت کی ہدایت کے تحت فوج میں کیوں جاتے ہیں۔ بلکہ انہوں نے مختلف دور میں نہ صرف خود نیم فوجی تنظیمیں کھڑی کیں بلکہ پاکستان کی فوج میں بھی ایک سپیشل بٹالین ” فرقان فورس“ کے نام سے قائم کروائی۔
◦مرزا صاحب بڑے فخر سے ذکر کرتے ہیں کہ انکے باپ نے انگریزوں کو پچاس گھوڑے اور سوار جنگ کے لئے مہیا کئے کیا وہ جہاد تھا یا نہیں؟
◦جس جہاد کی قرآن اجازت دے رہا ہے کیا وہ صرف مسلمانوں کے لئے ہے یا بین الاقوامی طور پر ایک تسلیم شدہ امر ہے؟ اور کیا اس جہاد کی امریکہ، یوروپ، ایشیا، یا کسی بھی ملک کو یا کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو ممانعت ہے؟ مرزا مسرور صاحب کیا آپکے پرداد نے جس جہاد کی منسوخی کا اعلان کیا ہے وہ اسلامی تعلیمات میں ہے؟ اگر ہے توکہئے کہ لعنت اللہ علیٰ الکاذبین۔
•جاوید کنول صاحب نے یہ کہاں لکھا ہے کہ توہین آمیز خاکے، آپکے حکم سے لگے ہیں؟ بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ جن عقائد کو آپ تسلیم کرتے ہیں اور جن کے پرچار کے لئے آپنے ڈنمارک کا سفر کیا اوروہاں کے حکام تک ان عقائد کو اس دعوے کے ساتھ پہنچایا کہ آپ 200 ملین احمدیوں کے سربراہ ہیں، ڈینش پریس نے انکی وجہ سے حوصلہ پا کر اور سمجھ کر کہ جہاد ایسا موضوع نہیں جس پرکوئی آواز اٹھے گی ایسے غلیظ کارٹون شائع کئے۔
•آپ نے کہا کہ آپکے مبلغ نے احتجاج کیا ، مضمون لکھا، اور جماعت کا وفد انکو ملا۔ کیا یہ احتجاج، پردہ ڈالنے کی ایک منافقانہ کوشش تو نہیں ان معاملات پرغالباً جنکے نتیجہ میں ڈینش اخباروں کو توہین آمیز مواد شائع کرنیکا حوصلہ ہوا؟
کیونکہ جماعت احمدیہ کی پوری تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی کوئی ایسا توہین آمیز مواد شائع ہوا، جماعت نے کسی بھی قسم کے احتجاج کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی کہ ہم ان چیزوں کے قائل نہیں بلکہ علمی رنگ میں انکا جواب دیں گے ، لیکن جواب بھی کبھی نہ دیا۔
اسکی مثالیں مرزا غلام احمد بانی جماعت، کی زندگی سے لیکر مرزا طاہر آنجہانی کے دور تک موجود ہیں، یعنی دلآزار کتب، ”امہات المومنین“، ”رنگیلا رسول“،” شیطانی آیات“ وغیرہ ، غرضیکہ ہر موقعہ پر جماعت کا کردار تماشائی کا رہا، اب کیسے ممکن ہو گیا کہ جماعت نے اپنے بانی کے طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احتجاج ریکارڈ کرانا شروع کر دیا؟ آ خر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے؟
مرزا مسرور صاحب کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ، جو پوائنٹس روزنامہ جنگ کے رپورٹر نے لکھے ہیں کیا آپ ان عقائد کی تبلیغ نہیں کرتے؟ کہئے کہ لعنت اللہ علیٰ الکاذبین۔

مرزا مسرور صاحب کیا آپ کا دعویٰ نہیں ہے کہ آپ 200 ملین سے زیادہ احمدیوں کے خلیفہ ہیں؟ کیا یہ تعداد صحیح ہے؟ اگر صحیح سمجھتے ہیں توکہئے کہ لعنت اللہ علیٰ الکاذبین۔
مرزا مسرور صاحب جو عقائد آپکی جماعت پھیلا رہی ہے ، اور جس طرح بے جواز اپنا دوسرا گال پیش کر کے مسلمانوں کے نام پر اور انکی طرف سے پیش کر کے بعض غلط کار اور انتہا پسندوں کو، تھپڑ مارنے کی ترغیب دے رہی ہے اسکا لازمی اور ایک ہی نتیجہ نکلے گا کہ غلط کاروں نے جو دریدہ دہنی کی ہے، وہ بار بار ایسا کریں۔
ہمارا آپکو مشورہ ہے کہ آپ مسلمان نہیں ہیں نہ ہی آپکو مسلمانوں کی نمائندگی کا حق ہے، اسلئے جو بھی آپ اپنے مذہب کی ہفوات پیش کرنا چاہیں انکو اپنے مذہب کے نام پر ہی پیش کریں ، نہ کہ اسلام کے نام پر، تاکہ انکے نتائج مسلمانوں کو نہ بھگتنے پڑیں، بلکہ آپ خود ہی بھگتیں۔
لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ پر ان معروضات کا کم ہی اثر ہو گا کیونکہ آپ مسلمانوں اور عیسائیوں، دونوں کے دشمن ہیں، اور اسطرح کی باتیں اور طریقے اختیار کر کے آپ دونوں کو لڑا کر اپنا اُلو سیدھا کرنے کے چکر میں ہیں، میں یہ بات بے بنیاد نہیں کہہ رہا بلکہ آپ اپنے پردادا کے مشن کو لیکر چل رہے ہیں اور انکا مشن کیا تھا ؟ عیسائیوں کے متعلق مرزا غلام اے قادیانی کہتے ہیں ”عیسائی مذہب سے ہماری کوئی صلح نہیں اور وہ سب کا سب ردی اور باطل ہے “۔
اگر اس شخص کی عیسائیوں سے کوئی صلح نہیں تو آپ اسکے جانشین ہیںآپکی کیسے صلح ہو سکتی ہے؟ اور مسلمانوں کے بارےمیں کہتے ہیں” میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسکے معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔ مگر رنڈیوں( بدکار عورتیں) کی اولاد نے میری تصدیق نہیں کی“۔ اور کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ ڈیڑھ سے دو ارب مسلمانوں میں کتنے ہیں جو مرزا غلام اے قادیانی کی کتابوں کو محبت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور عمل کر رہے ہیں؟
کیا انکی ایک بھاری تعداد مرزا غلام اے قادیانی کا انکار نہیں کر رہی اور انکو رد نہیں کر رہی ، اور انکوجھوٹا مدعی نبوت نہیں سمجھ رہی تو کہئے کہ لعنت اللہ علیٰ الکا ذ بین اور اگر ایک بہت بھاری تعداد مرزا غلام اے قادیانی کا انکار کر رہی ہے تو کیا انکو بدکار عورتوں کی اولاد کہنا، کسی بھی طرح پیغمبرانہ روایت ہے ، بلکہ کیا معمولی شرافت کا بھی مظاہرہ ہے، کجا نبوت کا؟

قادیانی خلیفہ مرزا مسرور اور لعنت اللہ علیٰ الکاذِ بین - حصہ اول

تحریر و تحقیق : مجاہدِ ختم بنوت شیخ راحیل احمد مرحوم

قادیانی جماعت کے سر براہ مرزا مسرور احمد نے اپنا 3 مارچ 2006 کا سارا خطبہ ایک دن قبل ”روزنامہ جنگ لندن“ میں جناب جاوید کنول نمائندہ جیو و جنگ کی چھپنے والی خبرپر دیا ہے، اور جس میں انہوں نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں ” لعنت اللہ علیٰ ا لکاذ بین“۔ اس خطبہ کے نتیجے میں،ہم بھی کہتے ہیں کہ جھوٹوں پر لعنت۔اگر ہم جنگ لندن کی خبر پڑھیں تو ہمیں یہ پوائنٹس ملتے ہیں :-
مرزا مسرور صاحب نے ڈنمارک کا دورہ کیا۔
•مرزا مسرور صاحب کی ڈنمارک کی ایک وزیر سے ملاقات ہوئی، جس میں سرکاری حکام بھی شامل تھے۔
•مرز ا مسرورصاحب کے مطابق اب مرزا غلام احمد ہی تا قیامت نبی ہیں،انہوں نے جہاد کو منسوخ قرار دیا اسکو ماننے کی وجہ سے انکی جماعت کو اصلی اور بہتر مسلمان قرار دیا، اور یہ تاثر دیا کہ سوائے سعودی عرب کے اور باقی دنیا میں مسلمان جہاد پر یقین نہیں رکھتے۔

اسی وجہ سے ڈینش اخبار کو جہاد پر بارہ(12)کارٹون شائع کرنے کا حوصلہ ہوا ہے۔
ہم ان باتوں کا تجزیہ کرتے ہیں کہ کیا واقعی جنگ کے رپورٹر نے جھوٹ بولاہے، یا اب مرزا مسرور صاحب کے دورہ کے جو نتائج برآمد ہو رہے ہیں ان کی ذمہ داری سے بچنے کے لئے اور اپنی جماعت کے افکار کو چھپانے اور اپنا چہرہ بچانے کے لئے قانونی کارروائی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی کی انکے پاس کوئی بنیاد نہیں، اور قانونی کاروائی ، قادیانی جماعت کے لئے ہر دور ، ہر ملک میں خسارے کا سودا ثابت ہوئی ہے۔
مرزا مسرور صاحب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے ستمبر 2005 میں ڈنمارک کا دورہ کیا۔ اس دورہ میں انہوں نے کیا کِیا اور کہا، تفصیلی موضوع ہے،ہم ایک دو باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مسرورصاحب نے پریس کے نمائندہ کو کہا کہ ،”ہم عیسائیت کی تعلیم کے مطابق کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال بھی پیش کر دو، اپنا دوسرا گال بھی پیش کرنے آئے ہیں“۔ جناب مرزا مسرور صاحب اس پر میرے سوال یہ ہیں :۔
(۱) آپ خود کو اسلام کا اصلی نمائندہ کہتے ہیں اور آپکی عملی پوزیشن یہ ہے کہ آپکو اسلام کی متوازن و امن پسندی کی تعلیم ظاہر کر نیکے لئے قرآن سے تو کچھ نہ ملا۔ ملا تو صلیبی مذہب سے ، جسکے بارے میں بانی جماعت احمدیہ کا کہنا ہے کہ” اس مذہب کی بنیاد محض ایک لعنتی لکڑی پر ہے، جسکو دیمک کھا چکی ہے۔
(۲) دوسرے آپکی جماعت کے گالوں پر ڈنمارک میں کونسے تھپڑ پڑ رہے تھے کہ آپکو دوسرا گال پیش کرنے کی ضرورت پڑ گئی؟ آپ تو الٹا وہاں مسلمانوں کے حقوق پر بھی قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور آپکے اس سے قبل ایسے کوئی بیان نہیں کہ جس سے ظاہر ہو کہ ڈنمارک میں آپکی جماعت کو کوئی تکلیف ہو؟
(۳) آپ نے بانی جماعت احمدیہ کی متابعت میںیہ کیوں نہ کہا کہ اے بدبو دار مذہب والو ہم (پاک صاف) لوگ اپنا دوسرا گال بھی پیش کرتے ہیں؟ کیونکہ اگر آپ اپنے پردادا کے سچے جانشین، اور حق بات بیان کرتے ہیں تو یہاں آپنے منافقت سے کام لیا یا اپنے دادا کا قول بھول گئے، آپکے پردادا فرماتے ہیں” عیسائیت ایک بدبودار مذہب ہے"۔

مرزا مسرور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک ریسیپشن میں وزیر سے ملاقات ہوئی تھی۔ اور ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ایسی ریسیپشن دی ہی اس لئے جاتی ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال ہو اور خوشگوار ماحول میں، ہلکے پھلکے انداز میںایک دوسرے کو اپنا موقف واضح کر دیا جائے، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے موقع سے مرزا مسرور فائدہ نہ اٹھائیں اور اپنی جماعت کو دوسرے مسلمانوں سے بہتر ثابت کرنے کے لئے اپنے پردادا کی نبوت کا نہ بتائیں اور اپنی جماعت کی امن پسندی ظاہر کرنے کے لئے اپنی(خود ساختہ) نبوت کے بل پر جہاد کی منسوخی کا جو اعلان کیا ہے اسکے متعلق نہ بتائیں؟ یہ انکا حق ہے۔
لیکن کیا اسکے ساتھ انہوں نے ان حکام اور وزیر کو یہ نہیں بتایا کہ جہاد کی منسوخی کے ساتھ انکے پردادا کا ایک عہد یہ بھی تھا ” بخدا میں صلیب کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے چھوڑونگا“۔ اور اگر انہوں نے اپنی جماعت کا موقف نہیں بتایا تو کیا وہ اپنے پیشرو، خلیفہ ثانی کی طرح، یورپین سوسائٹی کا عیب والا حصہ، اپنے پیشرو سے بھی زیادہ قریب اور بہتر انداز سے دیکھنے کے لئے اس ریسیپشن میں شامل ہوئے تھے؟بہر حال وہ بڑے آدمی ہیں ، بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ؟

Monday, June 8, 2009

جھوٹ کی وہی ملمع کاری - حصہ ہفتم

تحریر و تحقیق : مجاہدِ ختم نبوت شیخ راحیل احمد مرحوم

[۱] جب اللہ تعالےٰ قرآن کریم میں اپنے کلام کی صفت اور پہچان بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ،” میرے کلام میں اختلاف نہیں“ ، اب اگر مرزا صاحب واقعی ہی اللہ کے فرستادہ نبی ہوتے اوراللہ کے الہامات ہی ہم تک پہنچا رہے ہوتے تو انکے کلام اور الہامات میں اک سو اسی ڈگری کا فرق نہ ہوتا، کیونکہ اللہ اپنی نبی پر کبھی متضاد کلام نازل نہیں کرتا۔

[۲] مرزا جی کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ” خدا نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ میں تیری ہر ایک دعا قبول کرونگا“،تریاق القلوب /رخ،ج۱۵/ص۵۱۲۔ نہ صرف یہ بلکہ اور بھی کئی جگہ یہی دعویٰ کیا ہے اور اوپر دئے ہوئے اقتباسات، مرزا جی کے اقرار اور مولوی عبد الکریم کی وفات یہ ظاہر کرتی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی انتہائی تکلیف سے کی گئی دعائیں خدا نے نہیں سنیں، او ر مزیدتعلی مرزا صاحب کی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالےٰ کا ان سے وعدہ ہے کہ ،”میں وہی ارادہ کرونگا جو تمہارا ارادہ ہے“۔حقیقت الوحی/رخ ج۲۲/ ص۱۰۹۔مرزا جی کا اپنا اقرار ہے کہ انکی انتہائی تکلیف سے کی گئی دعائیں اللہ نے نہیں سنیں اور جو مرزا جی دنیا کو احیائے موتیٰ کا نظارہ دکھانا چاہتے تھے اللہ نے وہ بھی پورا نہیں کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ قران کریم میں بتاتا ہے کہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ اب ہم جب اللہ کی کلام کے بعد مرزا صاحب کے اس دعوے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس نتیجہ پر پہنچتے ہوئے ذرہ بھر بھی دیر نہیں لگتی کہ مرزا جی نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر افتراءکیا ہے اور جھوٹی نبوت کو صرف جھوٹ ہی سہارہ دے سکتا ہے اسیلئے جب بھی مرزا جی نے تحدی سے کوئی دعویٰ کیا خدا نے ان کو منہ کے بَل گرایا، مرزا صاحب کی کوئی بھی پیشگوئی، کسی بھی تحدی سے پیش کئے جانے والے الہام کو پکڑ لو تو ایک بھی پورا نہیں ہوا ماسوائے اسکے کہ پیاز کی طرح ، جیسے جیسے اسکو چھیلو گے تاویلوں کے پرت ہاتھوں میں آتے جائیں گے اور آخر میں ہاتھ میں صرف تاویلیں ہی ہونگی اور اصل کچھ بھی نہیں۔

[۳]مرزا جی نے لکھا ہے کہ خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں تو کیا مرزا جی نے جو تعبیریں کی ہیں وہ خدا کی مرضی سے نہیں کیں، کیونکہ انکا دعویٰ ہے کہ خدا تعالےٰ نے انکو بتمام و بکمال مصفیٰ کیا ہے اور وہ خدا کی مرضی کے بغیر اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے تو یہ کیسا خدا ہے جو اپنے نبی کے منہ سے متضاد باتیں کہلوا کر اسکو رسوا کر رہا ہے؟ یا یہ بھی مرزا جی کے دوسرے دعووں کی طرح بے بنیاد دعویٰ ہے ؟ ہو سکتا ہے مرزا جی کا خدا سات سمندر پار ہو، اور رابطے میں مشکلات ہوں( مرزا صاحب نے کشفاًخدا کو انگریزکی آواز اور روپ میں دیکھا) ، لیکن جس خدا کو میں جانتا ہوں ، مجھے یقین ہے کہ وہ میری شاہ رگ سے بھی قریب ہے اور اپنے نبیوں کو رسوا نہیں کرتا بلکہ ان سے کئے ہوئے وعدے اسطرح پورے کرتا ہے کہ سخت سے سخت دشمن اگر ذرا بھی دیانتدار ہے توبھی اقرار پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہاں اس نبی کا یہ دعویٰ خدا نے پورا کیا ہے، اور اپنے نبیوں کا نام اور کام دونوں جہانوں میں ایسا سر بلند کرتا ہے کہ تا قیامت دنیا ان پر درود سلام بھیجتی ہے۔

[4] اب آپ یہ دونوں پہلو دیکھنے کے بعد اور وقت کی مناسبت سے مرزا جی کے بدلتے ہوئے موقف ، الہامات کے ثبوت دیکھنے کے بعد کوئی احمدی جواب دے گا کہ مرزا صاحب کے کہنے کے مطابق جھوٹ بولنانجس کھانے کے برابر ہے، اب کیا مرزا جی نے نجس کھایا ہے یا نہیں ؟ جھوٹ کس نے بولا؟ مولویوں نے یا مرزا غلام احمد قادیانی نے؟ یہ تو ممکن ہے کہ بعض حالات کیوجہ سے جھوٹ کچھ عرصے کے لئے جڑیں پکڑ لے لیکن آخر کار اسکو مٹنا ہی ہے اور یہ قادیانی مذہب ، جسکی بنیاد مرزا صاحب کے جھوٹے الہاموں پر ہے مٹ کر رہیگا ، انشاءاللہ۔ اس سے قبل بھی کئی جھوٹے نبی پیدا ہوئے اور ان کے سلسلوں نے وقتی کامیابیاں حاصل کیں، بعض کی حکومتیں بھی قائم ہوئیں اور کئی نسلوں تک نبوت اور حکومت چلی ، لیکن آخر نیست و نابود ہو گئے اورآج انکا کوئی نشان بھی نہیں رہا، تو اس جھوٹی نبوت اور سلسلے کی، جس دن بڑی طاقتوں کو ضرورت نہ رہی اس دن اس نبی کی نسل کے ہاتھوں ہی یہ سلسلہ ختم ہو کر تاریخ کے پارینہ قصوں کا ایک حصہ بن جائیگا۔انشاءاللہ ۔بلکہ یہ عمل شروع ہو چکا ہے۔


احمدیوں سے اپیل:۔میری تمام احمدیوں سے درخواست ہے کہ نہایت ٹھنڈے دل و دماغ سے مرزا جی کی تحریروں کا جائزہ لیں، مرزا جی کے کردار کا جائزہ لیں، حیات عیسیٰ، ختم نبوت اور دوسرے فقہی امور ممکن ہے کہ نہ سمجھ میں آئیں لیکن کسی کا کیریکٹر تو ہر آدمی کی سمجھ میں آجاتا ہے۔مرزا صاحب کو آپ ایک شریعت پر عمل کرنے والا عام مسلمان بھی نہیں ثابت کر سکتے کجا کہ وہ شخص ولی ، مجدد یا نبی ہو۔


مرزا صاحب کی اپنی تحریروں سے ہی انکا تو شریف آدمی ہونا بھی ثابت نہیں ہوتا اگر کسی کو ثبوت چاہئے تو مرزا صاحب کی کتابوں میں سے بہت سی ایسی تحریریں ملتی ہیں لیکن ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم کے صفحہ 188 سے صفحہ 196 تک پڑھیں اور سوچیں کہ کیا ایک خدا کے فرستادہ کی تحریر ایسی ہوتی ہے اور کیا آپ اپنی والدہ، بیٹی یا بہن کے سامنے وہ تحریر بلند آواز سے پڑھ سکتے ہیں؟ اور آپ سوچیں کہ کس آدمی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ اسکو مسیح ابن مریم مان کر نہ توآپ کا مال آپکا اپنا ہے، نہ خاندان، بیوی بچے، نہ ہی رشتہ دار آپکے رہے، نہ ہی عزت آپکی اپنی رہی اور نہ ہی ایمان آپکا اپنا رہا، مسیح ابن مریم نے تو آ کر دولت بانٹنی تھی، یہاں دولت مختلف چندوں اور مدوں کی آڑ میں ہتھیائی جا رہی ہے ۔اور یہاں یہ حال ہے کہ دعوے سے پہلے ہی آپکے مسیح نے اسلام کی خدمت کے نام پرکشکول اٹھا لیا تھا اور اس کشکول سے نہ صرف قرض کے نیچے دبی ہوئی جائدادیں واگذار کروائیں بلکہ اربوں کی جائیدادیں کھڑی کر لیں، لیکن حرص کا یہ حال ہے کہ آج تک وہ کشکول آپکو ہر نماز، ہر جمعہ ، ہر اجلاس، ہر اجتماع پر ہی نہیں بلکہ آپکے گھروں میں بھی، آپکے مرنے والے خاندان کے رکن سے لیکر آپ کے نومولود تک، اسلام کی خدمت کے نام پر آپکا پیچھا کر رہا ہے۔ آپ کے گھر میں موت ہو یا پیدائش، شادی ہو یا غمی، غرضیکہ اس کشکول کا منحوس سایہ آپ کی زندگی کے ہر پہلو پر چھایا ہوا ہے۔ اور اگر آپ نے ان نام نہاد مقدس فقیروں سے جان نہ چھڑائی تو نسلوں تک بھی کوئی چیز آپکی یا آپکی اولادوں کی نہیں ہو گی، آپ دیکھ لیں کہ آپکے بزرگ چندے کے غلاف میں لپٹے ہوئے اس کشکول کو نہ پہچان سکے اور انکی سادگی کی سزا آپ اس عیار مذہبی ٹولے کے ہاتھوں بھگت رہے ہیں۔ میں بھی آپکی طرح سدھایا ہوا تھا جس طرح آنکھیں بند کر کے آپ آمنا و صدقنا کہہ رہے ہیں ، میں بھی ۵۰ سال تک یہی کرتا رہا ہوں

لیکن جب خدا نے مجھ سے مرزا جی کی کتابوں کی پٹاری کھلوائی تو اس میں سوائے تضادات اور اسلام کی (جس کے نام پر آپکو بےوقوف بنایا جا رہا ہے) جڑوں پر حملہ کرنےوالے سانپوں کے اور کچھ نہیں ملا، میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنے نبی( مرزا غلام احمد قادیانی) کی ہی بات مان لو اور تین بار نہیں تو ایک بار ہی اسکی کتابیں پڑھ لو، لیکن آنکھیں اور دماغ کھول کر اور غیر جانبدار ہو کر، تو مجھے یقین ہے کہ آپ اس نبوت ، اس جماعت، اور ان مذہبی مگر مچھوں کے ٹولے سے اپنے آپ کو نسبت دینا پسند نہیں کرو گے۔ جس اسلام کے نام پر تم لوگوں کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے وہ اسلام نہیں بلکہ ایک مسخ شدہ مذہب ہے، اسلام اللہ کا دین ہے اور یہ قادیانیت مرزا جی کا دین ہے جسکو اسلام میں تحریف کر کے اس میں بہائیت کے خیالات، ہندوانہ اعتقادات ، یہودیوں کے الزامات اور اپنے خود ساختہ الہامات شامل کر کے انہوں نے تیار کیا ہے، مغل بادشاہ اکبر نے لوگوں کی گمراہی اور اپنی سلطنت کے لئے دین الہٰی ایجاد کیا تھا اور اسی فراڈ قوم کے ایک اور ،قرضوں کے بوجھ سے لدی ہوئی چھوٹی سی زمینداری کے مغل زمیندار کے پوتے نے خاندان کو بھوک سے نکالنے کے لئے دین مرزائی ایجاد کیا ہے۔اربوں کے چندے ہتھیانے کے باوجود بھوک ہے کہ مٹتی ہی نہیں۔ اس دین مرزا میں اس وقت آپ اپنی یا اپنے بزرگوں کی سادگی سے پھنسے ہوئے ہو۔خدا کرے کہ حقیقی اسلام اور جھوٹی نبوت میں فرق کر سکو۔آمین

جھوٹ کی وہی ملمع کاری - حصہ ششم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

صحت کی بشارت نمبر۷:۔۲۰ ستمبر ۱۹۰۵ رویا۔دیکھا کہ میں بٹالہ کو جاتا ہوں، خیال آیا کہ نماز کا وقت تنگ ہے اس واسطے ایک مسجد میں گیا، جو کہ چھوٹی سی مسجد ہے، مسجد کے زینوں پر سے چڑھتے ہوئے مرزا خدا بخش صاحب کی آواز آئی۔ وہ تو کہیں چلے گئے۔ پھر جب میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ بڑے مرزا صاحب یعنی والد صاحب کا ایک پُرانا نوکر مرزا رحمت اللہ نام جو قریباً پچاس سال تک والد صاحب کی خدمت میں رہا تھا اور جس کو فوت ہوئے بھی قریباً چالیس سال ہوئے ہیں، وہاں موجود ہے اور غمگین سا ہے اور مسجد کے کنویں کی منڈیر پر محمد اسحٰق بیٹھا ہوا ہے،اور پیر محمد منظور بھی اس جگہ ہے۔اسحٰق نے مرزا رحمت اللہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ بڑے مرزاصاحب نے اس کی روٹی بند کردی ہے۔ اور یہ ارادہ کرتا تھا کہ چلا جائے۔اور خدا جانے کہاں جانا تھا۔ مگر منظور محمد نے اس کو رکھ لیا ہے کہ تجارت کر کے گذارہ کرینگے۔ ہمارے دل میں خیال آیا کہ معلوم نہیں مرزا صاحب نے کیوں روٹی بند کر دی ہے۔ بزرگوں کے کام پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ پھر الہام ہوا انی انا الرحمٰنُ لا یخافَ لدَیّ المُرسلون۔قل اللہ ژُم ذَر ھم فیِ خَو ضھم یلعبون۔ فرمایا یہ ایک پُر معنی خواب ہے اور مولوی عبدالکریم صاحب کے متعلق معلوم ہوتی ہے۔ روٹی مدار حیات ہے کیونکہ خوراک کے ساتھ زندگی کا بقا ہے، روٹی کا بند ہونا اس دنیا سے فوت ہو جانا ہوتا ہے،سو بنظر اسباب ظاہری یہ سخت بیماری ایک موت کا پیغام ہے، لیکن روٹی پھر لگ گئی ہے، کیونکہ منظور محمد نے رحمت اللہ کو رکھ لیا ہے ۔ رحمت اللہ سے مراد خدا کی رحمت ہے، اور منظور محمد سے مراد وہ امر ہے جو محمدکو منظور ہے، وحی الٰہی میں میرا نام محمد بھی ہے، پس اس سے مراد مولوی صاحب کی صحت اور تندرستی ہے جس کے واسطے ہم دعائیں کرتے ہیں۔تجارت سے مراد دعا کرنا۔ خدا پر ایمان رکھنا۔ اس پر بھروسہ کرنا اور اعمال صالحہ کا بجا لانا۔ جیسا کہ قرآن شریف میں ہے۔یَا ایُّھا ا لذین اٰ منوا ھَل اَدَلّکُم علیٰ تجارَةِِ۔ غرض معمولی زندگی جو بغیر کسی عوض کے تھی وہ تو بند ہو چکی ہے، لیکن اب تجارتی زندگی باقی ہے، یعنی وہ زندگی جو دعاوں کا نتیجہ ہے ۔ اس لئے رحمت اللہ کو جاتے جاتے روک لیا ہے۔ تذکرہ/ص562۔563/بحوالہ الحکم ج۹،ن۳۳ / مورخہ24 ستمبر ۱۹۰۵ء/ص۱و۲۔
صحت کی بشارت نمبر۸:۔”حضرت مولوی عبد الکریم کی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے ۹ ستمبر کو فرمایا کہ مجھے بہت ہی فکر تھا کہ بعض الہامات ان میں متوحش تھے۔ آج صبح بہت سوچنے کے بعد میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ بعض وقت ترتیب کے لحاظ سے الہامات آگے پیچھے ہو جاتے ہیں، چنانچہ ان الہامات کی ترتیب اللہ تعالےٰ نے میرے دل میں یہ ڈالی کہ ایسے الہامات جیسے اذا جاءافواج وسم من السماء اور کفن میں لپیٹا گیا اور ان المنایا لا تطیش سھا مھا ، یہ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ قضا و قدر تو ایسی ہی تھی مگر اللہ تعالےٰ نے اپنے خاص فضل ا رحم سے رد بلا کر دیا“۔بحوالہ الحکم۱۰ستمبر۱۹۰۵ صفحہ۱۲، کالم ۳ و ۴۔
آپ کی خدمت میں مرزا جی کا ایک دعویٰ پہلے پیش کر چکا ہوں ، جس میں وہ صحت یابی کے بارے میں کسی الہام سے انکاری ہیں اور اب مرزا جی کی اپنی بیان کردہ ، مولوی عبد الکریم کی صحت کی آٹھ بشارتیں بھی آپ نے دیکھ لیں، اب آپ دوسری جگہ بھی مرزا صاحب کی تردید بھی پڑھ لیں، لکھتے ہیں،
بشارت سے انکار :۔”۱۱ ، اکتوبر ۱۹۰۵ کو ہمارے ایک مخلص دوست یعنی مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اسی بیماری کاربنکل یعنی سرطان سے فوت ہو گئے تھے۔ اُن کے لئے بھی میں نے دعا کی تھی مگر ایک بھی الہام اُن کے لئے تسلی بخش نہ تھا“۔ حقیقت الوحی/رخ، ج۲۲/ص ۳۳۹۔ اس ایک حوالے میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف کسی تسلی بخش الہام سے انکار کیا ہے ، اور اس انکار کی جو اصل حقیقت ہے اس سے آپکو اوپر دئے گئے آٹھ بشارتوں کے حوالوں نے واقف کرا دیا ہے ، ان بشارتوں کے آخری دو حوالہ جات جن میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف صحت کی بشارت دی ہے بلکہ خدا کی طرف سے یقین دلایا ہے کہ اللہ تعالےٰ نے رحم کر دیا ہے اوربلا (یعنی موت) کو رد کر دیا ہے، پڑھئے اور سر دھنئے کہ یہ کسی نبی کا کلام ہے یا تھالی کا بینگن ہے جدھر مرضی لڑھکتا پھرے ؟دوسری جو کسی قسم کی بشارت سے انکار ہے اس میں ایک اور بات بھی نظر آتی ہے کہ اپنے دعا کرنے کو بھی بڑے معمولی طریق سے پیش کیا ہے ، تاکہ پڑھنے والے کی توجہ مرزا صاحب کے قبولیت دعا کے دعووں کی طرف نہ جائے ۔لیکن جس وقت مولوی عبدالکریم موت کی بیماری میں مبتلا تھے کیا اس وقت بھی اسی طرح معمولی طور پر لکھا تھا کہ میں انکے لئے دعا کی تھی یا اسکو بڑے ڈرامائی انداز میں پبلک میں بڑی خاص دعاوں کے رنگ میں پیش کروایا گیا تھا؟آگے دئے گئے حوالہ جات کو مکرر پڑھئے اور پھربتئے کیا یہ صرف دعا تھی یا خاص دعائیں؟
دعا میں تکلیف:۔ اس دعا میں میں نے بہت تکلیف اٹھائی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بشارت نازل کی اور عبداللہ سنوری والا خواب میں نے دیکھا جس سے نہایت درجہ غمناک دل کو تشفی ہوئی جو گذشتہ اخبار میں چھپ چکا ہے“ ۔ملفوظات/ ج ۸ /صفحہ ۷۔
بہت دعا:۔آجکل چونکہ مولوی عبد الکریم صاحب کے واسطے بہت دعا کی جاتی ہے اس واسطے امید ہے اللہ تعالےٰ انکو شفا دیگا۔ غلام قادر سے مراد خدائے قادر کی قدرت کی طرف اشارہ ہے۔ تذکرہ/ص۵۶۲/ بحوالہ الحکم ، ج۹ ،ن۳۳/مورخہ۲۴ستمبر۱۹۰۵ /ص ۱ کالم۳۔
دعاوں کے نتیجہ میں زندگی :۔غرض معمولی زندگی جو بغیر کسی عوض کے تھی وہ تو بند ہو چکی ہے، لیکن اب تجارتی زندگی باقی ہے، یعنی وہ زندگی جو دعاوں کا نتیجہ ہے ، اس لئے رحمت اللہ کو جاتے جاتے روک لیا ہے۔ تذکرہ/صفحہ۵۶۲۔۵۶۳/ الحکم ج ۹، ن۳۳ /مورخہ۲۴ستمبر۱۹۰۵/صفحہ۱۔۲
پوری پوری رات جاگ کر دعا:۔حضرت خلیفۃ اللہ (یعنی مرزا جی) کے لئے اُس دن سے کہ مولوی (عبد الکریم) صاحب پر عمل جراحی کیا گیا رات کا سونا قریباً حرام ہو گیا۔ باوصفیکہ چوٹ لگنے اور بہت سا خون نکل جانے کی وجہ سے حضرت اقدس کو تکلیف تھی اور دوران سر کی بیماری کی شکایت تھی، لیکن یہ کریم النفس وجود ساری رات رب رحیم کے حضور مولانا مولوی عبد الکریم صاحب کے لئے دعاوں میں لگا رہا۔ یہ ہمدردی اور ایثار ہر شخص میں نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالےٰ کے بر گزیدہ بندوں اور ماموروں ہی کی یہ شان ہے کہ وہ اپنی تکالیف کو بھی دوسروں کی تکلیف کے مقابلہ میں بھول جاتے ہیں اور نہ صرف بھول جاتے ہیں بلکہ قریب بہ موت پہنچ جاتے ہیں( کاش موت کے قریب پہنچنے کی بھی ایڈیٹر الحکم نے تشریح کر دی ہوتی کہ کس طرح اور کب اور کیوں پہنچے)۔ لیکن دوبارہ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ موت کے قریب تو پہنچے، لیکن نیچے کے کمرے سے اوپر چھت والے کمرہ تک نہ پہنچ سکے (حالانکہ مولوی عبدالکریم آخری سانس تک انکو پکارتے رہے اور مرنے سے پہلے صرف ایک نظر دیکھنے کی حسرت لئے ہوئے عالم جاودانی کو کوچ کر گئے مگر مرزا صاحب یہ تکلیف نہ اٹھا سکے کہ اپنے گھر کی چھت پر جا کر ایک مرتے ہوئے دوست، جانثار مرید، امام الصلوٰة وغیرہ وغیرہ کو اپنی ایک جھلک ہی دکھا دیتے؟۔ناقل )لیکن ہاں انکے دل میں کسی بندہ کے لئے خاص طور پر اضطراب اور قلق کا پیدا ہونا خود اس بندہ کی عظمت اور وقعت کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔حضرت اقدس نصف شب سے آخر شب تک دعاوں میں مصروف رہے اور اس اثنا میں مولوی صاحب ممدوح کے دروازہ پر آکر حال بھی پوچھا۔( اس حال پوچھنے کی دوسری روایتوں و بیانات سے تصدیق نہیں ہوتی، ہاں حال پوچھواتے رہے ہیں دوسروں کے ذریعہ ۔ ناقل)۔ساری دنیا سوتی تھی، مگر خدا کا یہ جری جاگتا تھا اپنے لئے نہیں اپنی اولاد کے لئے نہیں، اپنے کسی ذاتی مقصد کے لئے صرف اس لئے کہ تا رحیم و کریم مولا کے حضور اپنے ایک مخلص کی شفا کے لئے دعا کرے۔ فرمایا میں نے ہر چند چاہا کہ دو چار منٹ کےلئے ہی سو جاوں مگر میں جانتا ہی نہیں کہ نیند کہاں چلی گئی“۔الحکم ج۹،ن ۳۱/۳۱ اگست۱۹۰۵/ ص۹۔ اور نہ صرف خاص دعائیں کرنے کی نوید سنا رہے تھے بلکہ انکی مقبولیت کا بھی یقین دلا دیا تھا۔ یہانتک کہ اس دعا کو اپنا نشان بھی قرار دینے والے تھے بلکہ تقریباً قرار دے چکے تھے، میں آپ سے ایسے ہی بات نہیں کر رہا بلکہ اس سے جماعت کی معرفت بھی بلند ہونےکی خوشخبریاں پھیلائی جا رہی تھیں،ایڈیٹر الحکم رقم طراز ہیں۔ ”مولوی عبدالکریم صاحب کے لئے جو دعائیں کی جاتی ہیں جب انکا کھلا کھلا اظہار ہوگا تو ہماری جماعت کی معرفت اور امید زیادہ ہو جائیگی“، الحکم ج ۹، ن ۳۴/ مورخہ ۳۰ ستمبر ۱۹۰۵۔ اور اسی اشاعت میں آگے لکھتے ہیں ۔”یہ امر بلا مبالغہ ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا اس بیماری سے جاں بر ہوجاناایک عظیم الشان نشان ہو گا۔ جو سچ مچ احیاءموتیٰ ہو گا۔ خدا کرے ہم اس کو بہت جلد دیکھیں“ الحکم ج۹، ن۳۴/۳۰ستمبر۱۹۰۵ئ/ص۱۲، کالم۳ ۔
اوپر بیان کئے ہوئے حوالے ثابت کر رہے ہیں کہ مرزا صاحب نے ایک ہی معاملے میں دو قسم کے الہامات پبلک کے سامنے رکھے۔ پہلی قسم میں،کتنے ہی حوالے جس میں مرزا جی مولوی صاحب کے آخری ایام میں ، انکے لئے صحت اور زندگی کی بشارتیں تھیں ہر چند روز بعد سناتے رہے ، اور دوسری قسم میں مولوی عبدالکریم کی وفات کے الہامات تھے مگر ان الہامات کی مولوی صاحب کی زندگی میں ہی تشریح کر دی کہ خدا نے اب زندگی کا پیغام دے دیا ہے۔ لیکن بعد میں مولوی عبدالکریم کی وفات کے بعد اسکی موت کے الہامات کا پنڈورہ اٹھا لیا اور مرزا جی نے صحت کی کسی بھی بشارت یا الہام سے انکار کیا ہے ، صاحب عقل لوگوں کے لئے کتنے پیغام دے رہے ہیں۔ میرا قارئین سے سوال ہے کہ کیا مرزا غلام احمد قادیانی کی ان باتوں سے یہ سوال سامنے نہیں آتے کہ؟

جھوٹ کی وہی ملمع کاری - حصہ پنجم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

اور دوسری جگہ لکھتے ہیں،”اگر کوئی لغزش ہو بھی جائے تورحمتِ الٰہیہ جلد تر اُن ( ملہمین) کا تدارک کر لیتی ہے“۔براہین احمدیہ/ ر خ ج۱/ص 536 ۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ مولوی عبدالکریم کی موت تک اس غلطی کا تدارک نہیں ہو سکا ،کیونکہ میرے خیال میں خدا تعالےٰ یہ چاہتا تھا کہ جھوٹے نبی کے جھوٹوں کے دستاویزی ثبوت بھی قائم دائم رہیں۔ اب دیکھئے کہ اسوقت کے مرزا صاحب اور جماعت احمدیہ کے سرکاری ترجمان” الحکم“ میں مرزا جی کے حوالے سے کیا کیالکھا ہے۔
صحت کی بشارت نمبر ۱:۔” ۳۰ اگست ۱۹۰۵ ۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی گردن کے نیچے پشت پر ایک پھوڑا ہے، جس کو چیرا دیا گیا ہے۔(مرزا صاحب نے) فرمایا میں نے انکے واسطے رات دعا کی تھی۔روَیاءمیں دیکھا کہ مولوی نور الدین ایک کپڑا اوڑھے بیٹھے ہیں اور رو رہے ہیں۔ فرمایا ہمارا تجربہ ہے کہ خواب کے اندر رونا اچھا ہوتا ہے۔اور میری رائے میں طبیب کا رونا مولوی صاحب کی صحت کی بشارت ہے“۔تذکرہ،صفحہ ۵۵۴،بحوالہ الحکم جلد ۹، نمبر۳۱، مورخہ۳۱ ، اگست ۱۹۰۵۔ لیکن مرتب نے اسکے ساتھ بھی تحریف کرتے ہوئے حقیقت الوحی( جو کہ ۱۹۰۷ءمیں چھپی تھی )میں سے بھی اوپر دئے گئے حوالے ک آگے کچھ بڑھا دیا ہے جو کہ ۱۹۰۵ءمیں چھپنے والے الحکم میں نہیں تھا۔مرزا صاحب نے اپنے روَیاءکی تعبیر اپنے65 سالہ عمر کے تجربہ، خدا کی منشاءکے تحت ہی کچھ بولنے اور علوم لدنیہ و سماویہ کے تحت کی ہے جو کہ غلط نہیں ہونی چاہئے،کیونکہ اگر تعبیر غلط ہوتی تو مرزا جی کے بقول اللہ اسکا تدارک جلد تر کر دیتا۔لیکن نہیں ہوا۔
صحت کی بشارت نمبر ۲:۔”۷ ستمبر ۱۹۰۵۔( مرزا صاحب نے) فرمایا، اللہ تعالےٰ کے نشان اس طرح کے ہوتے ہیں کہ ان میں قدرت اور غیب ملاہوا ہوتا ہے اور انسان کی طاقت نہیں ہوتی کہ ان کو ظاہر کر سکے۔ فرمایا مولوی صاحب کی زیادہ علالت کے وقت میں بہت دعا کرتا تھا اور بعض نقشے میرے آگے ایسے آئے جن سے نا امیدی ظاہر ہوتی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ موت کا وقت ہے اور ظاہر طب کی رو سے بھی معاملہ خوفناک تھا، کیونکہ ذیابطیس والے کو سرطان ہو جائے تو پھر بچنا مشکل ہوتا ہے ۔ اس دعا میں میں نے بہت تکلیف اٹھائی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بشارت نازل کی اور عبداللہ سنوری والا خواب میں نے دیکھا جس سے نہایت درجہ غمناک دل کو تشفی ہوئی جو گذشتہ اخبار میں چھپ چکا ہے“ ۔بحوالہ ملفوظات جلد ۸ ، صفحہ ۷۔ نیز الحکم مورخہ ۱۰ ستمبر ۱۹۰۵، صفحہ ۳ کالم ۲۔
صحت کی بشارت نمبر۳:۔ ۹ ستمبر کے حوالے سے ایڈیٹر الحکم رقم طراز ہیں، ”حضرت اقدس حسب معمول تشریف لے آئے اور ایک رویا(خواب) بیان کی جو بڑی ہی مبارک اور مبشر رویا ہے جسکو میں نے اس مضمون کے آخر میں درج کر دیا ہے۔فرماتے تھے کہ آج تک جس قدر الہامات اور مبشرات ہوئے تھے اُن میں نام نہ تھا۔ لیکن آج تو اللہ تعالےٰ نے خود مولوی عبدالکریم صاحب کو دکھا کر صاف طور پر بشارت دی ہے۔ اس رویا کو سُن کر جب ڈاکٹر صاحب پٹی کھولنے گئے ہیں تو خدا کی عجب قدرت کا مشاہدہ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ سارے زخم پر انگور آگیا ہے۔ و الحمدوللہ علیٰ ذالک۔ غرض اس وقت زخم کی حالت اچھی ہے اور مولوی صاحب روبصحت ہیں۔ ضعف اور نقاہت ہے اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ کئی دن سے کھایا کچھ نہیں تھوڑی سی یخنی یا دودھ پیتے ہیں،بہر حال رب کریم کے حضور سے بہت بڑی امیدیں ہیں کہ وہ اپنے بندے کو ضائع نہ کریگا۔ جماعت کا فرض ہے کہ مولوی صاحب کےلئے خاص طور پر دعائیں کرے“۔الحکم،جلد۹،نمبر۳۲، مورخہ۱۰ستمبر۱۹۰۵، صفحہ۲، کالم4۔
اور وہ رویا کیا تھی۔” ۱۰ ستمبر ۱۹۰۵ء ۔رویا، ایک جگہ ایک بڑی حویلی ہے،اس کے آگے ایک بڑا چبوترہ ہے جس کی کرسی بہت بلند ہے، اس پر مولوی عبدالکریم صاحب سفید کپڑے پہنے ہوئے دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں، اسی جگہ میں ہوں اور پانچ چار اور دوست ہیں جو ہر وقت اسی فکر میں رہتے ہیں۔ میں نے کہا مولوی صاحب میں آپکو صحت کی مبارک باد دیتا ہوں، اور پھر میں رو پڑا اور میرے ساتھ کے دوست بھی رو پڑے اور مولوی صاحب بھی رو پڑے ،کسی نے کہا دعا کر لو اور دعا میں تین دفعہ سورة فاتحہ پڑھی۔ تذ کرہ /صفحہ560 / بحوالہ الحکم ص۱۲۔
صحت کی بشارت نمبر4:۔”۱۹ ستمبر ۱۹۰۵ ۔ رویا دیکھا کہ مرزا غلام قادر صاحب میرے بڑے بھائی نہایت سفید لباس پہنے ہوئے میرے ساتھ جا رہے ہیں اور کچھ باتیں کرتے ہیں۔ایک شخص انکی باتیں سن کر کہتا ہے کہ یہ کیسی فصیح بلیغ گفتگو کرتے ہیں، گویا پہلے سے حفظ کر کے آئے ہیں۔ فرمایا ہمارا تجربہ ہے کہ جب کبھی ہم اپنے بھائی صاحب کو خواب میں دیکھتے ہیں تو اس سے مراد کسی مشکل کام کا حل ہونا ہوتا ہے، آجکل چونکہ مولوی عبد الکریم صاحب کے واسطے بہت دعا کی جاتی ہے اس واسطے امید ہے اللہ تعالےٰ انکو شفا دیگا۔ غلام قادر سے مراد خدائے قادر کی قدرت کی طرف اشارہ ہے۔ تذکرہ/صفحہ 562/ بحوالہ الحکم / جلد۹ نمبر۳۳/مورخہ 24 ستمبر۱۹۰۵ /ص ۱۔ کالم۳۔ یہ ٹکڑا جو ڈبل لائن والا ہے ، مرتب تذ کرہ نے تحریف کرتے ہوئے یہاں صرف چند نکتے ڈال دئے ہیں، تاکہ مرزا جی کی اپنی کی ہوئی اصل تشریح لوگوں کی نظر میں نہ آئے، الحکم کی پرانی جلدیں کس نے پڑھنی ہیں اور کہاں سے ملنی ہے اس طرح مرزا جی کے ” نبُوَتی تجربے“ آج کی دکانداری میں حائل نہ ہوں۔ ابھی آگے دیکھئے؟
صحت کی بشارت نمبر۵:۔ اسی اشاعت میں ہی یہ واقعہ بھی درج ہے کہ ”شیخ نور احمد صاحب نے اپنا ایک خواب عرض کیا کہ میں نے دیکھا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مسجد میں کھڑے ہیں اور وعظ کرتے ہیں اور یہ آیت پڑھتے ہیں” اولئک علیٰ ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلھون“۔ فرمایا( مرزا صاحب نے) اس سے بظاہر مولوی صاحب کی صحت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔واللہ اعلم“۔ملفوظات جلد۸،صفحہ۱۳۔۱۴بحوالہ الحکم۲۴ستمبر۱۹۰۵ ص۲ کالم۲۔
صحت کی بشارت نمبر6:۔اور ااسی صفحہ کے کالم 4 پر مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ۲۱ستمبر کو اعلیٰ حضرت (مرزا جی۔ناقل) حضرت مولوی (عبدالکریم) صاحب کے لئے بہت دعا کرتے رہے اس پر الہام ہوا ” طلع البدر علینا، من ثنیۃ الوداع“( یعنی ہم پر بدر چڑھا جس کا صاف مطلب ہے کہ مولوی عبدالکریم صحت یاب ہوگا) ۔ اس الہام کے نیچے حاشیہ میں تذ کرہ کے مرتب نے الحکم کی اصل عبارت کو حذف کرتے ہوئے جس میں مرزا جی سے صحت یابی روایت ہے ،کی بجائے یہ نوٹ لکھ دیا ہے کہ ”۲۱ ستمبر کی رات حضرت مولوی صاحب کے لئے بہت دعا کرتے رہے اس پر یہ الہام ہوا“۔ واہ ، بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ خیر جب مرزا جی ہیر پھیر کریں گے تو پھرانکی اُمت کے لئے تو فرض بن گیا۔

جھوٹ کی وہی ملمع کاری - حصہ چہارم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

کفن میں لپیٹا گیا۔ ”۹ ستمبر۱۹۰۵ ان المنایالا تطیش سھامھا۔کفن میں لپیٹا ہوا۔ فرمایا معلوم نہیں یہ الہامات کس کے متعلق ہیں“۔ بحوالہ الحکم، جلد ۹ ، نمبر ۳۳ ، صفحہ ۳ ، کالم ۲۔ اب مزے کی بات ہے کہ تذ کرہ میں(جسکا حوالہ اوپر دیا گیا ہے) تحریف کرتے ہوئے صرف کفن میں لپیٹا گیا، تک درج کیا ہے اور مرزا جی کی تشریح جو الحکم میں ہے، اسکو درج نہیں کیا۔ اسپر بھی میرے سوالات وہی ہیں جو اوپر دئے گئے ہیں ، دوسری بات یہ ایسے گول مول الہامات ہیں ،کہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جس پر، جہاں پر، جس وقت ( مرزا جی کی وفات کی بعد بھی)،چسپاں کئے جا سکتے ہیں، یہ وہی بات ہے کہ میں کہہ دوں کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ” سردی کی لہر چل رہی ہے ، اس سردی کی شدت کی وجہ سے زکام ٹل نہیں سکتا، اور ناک صاف کرتا دیکھا گیا“، اب سردی سے کئی بیمار ہونگے اور کئیوں کے ناک بہیں گے ، اب جس پر مرضی ہے چسپاں کر دوں اور کہہ دوں کہ دیکھو جی، میرا الہام کیسی صفائی سے پورا ہوا ہے،اگر آپ کا یہ فرمان ہے کہ آخر فوت تو ہوئے نا مولوی صاحب، تو یہ مت بھولیں کہ مرزا جی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ان کے والد ایک حاذق اور مشہور طبیب تھے جو والیان ریاست کے علاج بھی کرتے تھے اور مرزا جی نے طب ان سے پڑھی تھی،اس وجہ سے انکو بیماریوں اور انکے نتائج کا علم تھا، اور اس زمانے میں کاربنکل کا مریض کم ہی صحت یاب ہوتا تھا اور آگے ، مرزا جی کے صحت یابی کے کسی الہام سے انکار کے باب میں مرزا جی کی اپنی تحریر کے حوالے سے ثابت ہو گا کہ مرزا جی کو پتہ تھا کہ کاربنکل کا مریض مشکل سے ہی بچتا ہے، اور مرزا جی کو مولوی عبد الکریم صاحب کی لمحہ بہ لمحہ کی حالت کا علم تھا ، اور اس وجہ سے یقیناً مرزا جی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ اب مشکل سے ہی بچیں گے، اس لئے اب وقت ہے کہ الہامات تیار کر لو تا وقت پر کام آئیں اور سند رہیں۔دوسری طرف احباب کو انکی صحت کی خوش خبریاں دی جا رہی تھیں، اس طرح مرزا جی نے اپنے طریقہ کار کے مطابق دونوں سائڈ محفوظ کر لیں کہ اگرخدا تعالےٰ کے رحم سے صحت ہو جائے تو اپنے رویا پیش کر دئے جائیں اور دنیا میں اپنی دعاوں کی قبولیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر مزید مال اکٹھا کرنےکا موقع محفوظ رہے، اور جیسا کہ مرزا صاحب کو علم طب جاننے کی وجہ سے اندازہ تھا کہ اگرمولوی عبدالکریم اگلے جہان کو سدھاریں تو یہ الہامات پیش کر دئے جائیں۔یعنی چت بھی اپنی اور پت بھی اپنی۔
اُس نے اچھا ہونا ہی نہ تھا۔ یہ الہام اس سے پہلے کم از کم بیماری کے دنوں میں یا موت تک کہیں نظر نہیں آتا، اور پہلی بار تتمہ حقیقت الوحی میں مولوی صاحب کی وفات کے کافی عرصہ بعد شائع ہوا ہے۔ ویسے بھی مرزا جی نے جیسے لیکھرام کے بارے میں بعض دعوے اسکی موت کے بعد کئے ، اگر ایک یہ دعویٰ بھی کر لیا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟
اب میں قبل اس کے کہ مرزا جی کے ان ارشادات کو پیش کروں جو مولوی عبدالکریم صاحب کی صحت یا بی کے بارے میں تھے ، تتمہ حقیقت الوحی سے ایک اقتباس آپکی خدمت میں پیش کرنا چاہونگا، جس میں مرزا جی نے صحت یابی کے بارے میں کسی الہام وغیرہ سے انکار کیا ہے ، کیونکہ میری خواہش ہے کہ جہاں تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ اور ہر پہلو کے متعلق مواداحمدیوں کے سامنے پیش کروں تاکہ وہ کسی نتیجہ پر آسانی سے پہنچیں اور سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کر سکیں ، شرط صرف حوصلے اورغیر جذباتی ہو کر پڑھنے کی ہے مرزا جی لکھتے ہیں،
”یاد رہے کہ میرے نشانوں کو سنکر مولوی ثناءاللہ صاحب کی عادت ہے کہ ابو جہلی مادہ کے جوش سے انکار کے لئے کچے حیلے پیش کیا کرتے ہیں چنانچہ اس جگہ بھی انہوں نے یہی عادت دکھلائی اور محض افتراءکے طور پر اپنے پرچہ اہلدیث ،۸ فروری ۱۹۰۷ میں میری نسبت سے لکھدیا ہے کہ مولوی عبدالکریم کے صحت یاب ہونے کی نسبت جو انکو الہام ہوا تھا کہ وہ ضرور صحت یاب ہو جائیگا مگر آخر وہ فوت ہو گیا، اس افتراءکا ہم کیا جواب دیں بُجز اسکے کہ لعنت اللہ علی الکاذبین۔ مولوی ثناءاللہ صاحب ہمیں بتا دیں کہ اگر مولوی عبدالکریم صاحب مر حوم کے صحت یاب ہونے کی نسبت الہام مذکورہ بالا ہو چکا ہے تو پھر یہ الہامات مندرجہ ذیل جو پرچہ اخبار بدر اور الحکم میں شائع ہو چکے ہیں کس کی نسبت تھے۔ یعنی کفن میں لپیٹا گیا۔ 47 سال کی عمر۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس نے اچھا ہونا ہی نہیں تھا۔ ان المنایا لا تطیش سہامہا یعنی موتوں کے تیر ٹل نہیں سکتے۔واضح ہو کہ یہ سب الہام مولوی عبد الکریم صاحب کی نسبت تھے۔ ہاں ایک خواب میں انکو دیکھا تھا کہ گویا وہ صحت یاب ہیں مگر خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں اور تعبیر کی کتابوں کو دیکھ لو خوابوں کی تعبیر میں کبھی موت سے مراد صحت اور کبھی صحت سے مُراد موت ہوتی ہے اور کئی مرتبہ خواب میں ایک شخص کی موت دیکھی جاتی ہے اور اسکی تعبیر زیادت عمر ہوتی ہے ۔ یہ حال ہے اُن مولویوں کا جو بڑے دیانتدار کہلاتے ہیں۔جھوٹ بولنے سے بد تر دنیا میں اورکوئی برا کام نہیں۔جھوٹ کو خدا نے رِجس سے مشابہت دی ہے مگر یہ لوگ رِجس سے پرہیز نہیں کرتے“۔تتمہ حقیقت الوحی/رخ ،ج۲۲/ص458۔
اوپردئے گئے حوالے میں مرزا جی نے یہ دعاوی کئے ہیں:۔
پہلادعویٰ :۔ جو الہام موت کے بارے میں بیان کئے ہیں، وہ صرف مولوی عبدالکریم مرحوم کے لئے تھے۔
دوسرا دعویٰ :۔ مولوی عبد الکریم کی صحت یابی کے کسی الہام کا نکار کیا ہے۔
تیسرادعویٰ :۔ صرف ” ایک خواب میں جو ان کوصحت یاب دیکھا تھا تو وہ تعبیر طلب تھا“۔


پہلے دعوے کی قلعی میں اسی مضمون میں اس حوالے کے پیش کرنے سے قبل ہی کھول چکا ہوں کہ یہ الہامات مولوی عبدالکریم صاحب پر انکی موت کے بعد چسپاں کئے گئے ہیں پہلے انکا کوئی اور مصداق تھا۔اور چونکہ جھوٹے کے کلام میں تضاد ہوتا ہے، اور مرزا صاحب کے کلام کا تضاد اس دعوے کے حوالے سے بخوبی واضح کر دیا گیا ہے، اب باقی دعووں کا تجزیہ پیش خدمت ہے۔ مولوی صاحب کی بیماری کے بارے میں جماعت احمدیہ کی سرکاری خبر، جماعت احمدیہ کے اس وقت کے ترجمان اخبار الحکم کی ۳۱ ،اگست۱۹۰۵ میں شائع ہوئی تھی اور مولوی صاحب ۱۱، اکتوبر ۱۹۰۵ کو وفات پا گئے اور مرزا جی کے الہامات اور اخلاقی کردار کو آئندہ رہتی دنیا تک اپنی جماعت کے لئے باعث شرمندگی بنا گئے۔۳۱ اگست کے اخبار میں جو خبر لگی ہے اسی خبر میں ہی لمبی تمہید کے بعدآپریشن کی یا پھوڑے کو چیرا دینے کے ساتھ ہی مرزا جی کی رویاءلکھی ہے اور یہ خبر ہی مرزا صاحب کے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے لیکن میں آپکے سامنے اسکے علاوہ بھی مواد پیش کرونگا تاکہ قارئین کو کسی تشنہ کامی کا احساس نہ ہو۔یاد رہے کہ مرزاجی کا دعویٰ نبی ہونیکا ہے اور ساتھ ہی انکا قول یہ بھی ہے کہ ” پیغمبر کا کشف اور خواب وحی ہے“۔ایام الصلح ،رخ،ج 14/ص۲۷۵و۲۷۶۔

جھوٹ کی وہی ملمع کاری - حصہ سوم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

حتیٰ کہ آنکھیں تک نہیں ڈبڈبائیں ، کیونکہ اگر آنکھیں ڈبڈبائی بھی ہوتیں تو غور سے دیکھنے والا ضرور ذکر کرتا یا کم از کم صاحبزادہ صاحب نے جو ہر روایت کے ساتھ اپنا نوٹ لکھا ہے وہی ذکر کر دیتے۔اور اگر آپ کہیں کہ آنکھیں ڈبڈبانا ایسی اہم بات نہیں تھی کہ کتاب میں ذکر ہوتا،تو یہ بھی ذکر موجود ہے، اسی کتاب میں دوسری جگہ موجود ہے کہ جب والدہ کا ذکر آتا تھا تو آنکھیں ڈبڈبا جاتی تھیں، اور والدہ کے مرنے کے بیس پچیس برس کے بعد بھی یہ حالت تھی۔ دیکھیں صاف پتہ چل رہا ہے کہ جہاں حقیقی محبت تھی وہاں بیس برس کے بعد بھی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں اور اگر یہاں بھی واقعی ہی کوئی احساس ہوتا توکم از کم موت کے دن ہی روئے نہیں تھے تو آنکھیں ہی ڈبڈبا آتیں، غیروں کی اتنی دکھ والی موت کا سن کر بھی حساس انسان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں ، لیکن مرزا جی کے احساس کو مخلص مریدی، امامت، دوستی قربانی، غرض کسی چیز نے بھی نہیں جھنجوڑا، حتیٰ کہ مرزا جی کے بیٹے مرزا بشیرالدین محمود نے ، جنکی عمر اسوقت 16 ۔ 17 سال تھی، مولوی صاحب کی وفات پر کافی روئے، تو مرزا صاحب نے سوال کیا کہ محمود کو کیا ہوا ہے؟ میرے خیال میں تو اسکا مولوی صاحب سے ایسا کوئی تعلق نہیں تھا ، اسکو سمجھاوورنہ یہ بیمار ہو جائیگا ! جب ہم ان سب روایات کو ایک جگہ اکٹھا کر کے تجزیہ کریں تو سوائے اسکے کہ مرزا جی ایک ایسے سخت دل انسان نظر آتے ہیں، جن کے دل میں سوائے اپنے اور اپنے خاندان کے مفاد کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔ جو شخص اگر تمام نبیوں کا مجموعہ ہو،رسول کریم کا ظل ہوتو، کیا ایسا خود غرضانہ کردار دکھا سکتا ہے؟ اگر واقعی ظِلِ رسول ہو گا تواسکا کردار تو دشمنوں کے لئے ایسا رحیمانہ، فیاضانہ ، اور ہمدردانہ ہوگا کہ صدیوں تک دوست کیا دشمن بھی معترف رہیں گے جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و انسانیت نوازی کا چودہ سو سال گزرنے کے باوجود زمانہ آج بھی معترف ہے اور تا قیامت اسکی کوئی نظیر نہیں ملے گی ،اور غیر مسلم بھی انکو بلا جھجک رحمت اللعالمین کہتے اور سمجھتے ہیں۔
اب جو میں مرزا جی کی گول مول پیشگوئیوں کا ذکر کرونگا اس سے بھی ثابت ہو جائےگا کہ نبوت ، مجددیت، ظلیت وغیرہ ، یہ سب ڈھونگ ہیں جو مرزا جی نے اپنے اغراض و مقاصد پورے کرنے کےلئے کھڑے کئے ہیں ۔ آگے الفضل کے اسی مضمون میں فاضل مضمون نگار لکھتے ہیں، ” حضرت مولوی صاحب کی وفات کے متعلق بار بار اللہ تعالےٰ نے الہامات کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کو خبریں دیں، چنانچہ ۲ ستمبر کو الہام ہوا ” سینتالیس سال عمر“۔اسی روز دوسرا الہام ہوا ” اس نے اچھا ہونا ہی نہ تھا“۔ ۸ ستمبر کو الہام ہوا ” کفن میں لپیٹا گیا“، ان الہامات کے عین مطابق آپ ۱۱ ۔اکتوبر ۱۹۰۵ کو بدھ کے دن اڑھائی بجے عالم جاودانی کو سدھار گئے“، اب ان الہامات کے متعلق جو فاضل مضمون نگار نے پیش کئے ہیں آپکے سامنے مرزا جی کے اپنے کئے ہوئے معنی پیش کرتا ہوں اور اس کے بعد مرزا جی کے مولوی عبدالکریم صاحب کی صحت کے متعلق الہامات، خیالات اور جماعت کے احباب کی خوابیں اور مرزا صاحب کی تشریحات پیش کرونگا۔ اس کے بعد مجھے یقین ہے کہ آپ یقیناً سوچیں گے کہ افراد جماعت احمدیہ بد قسمتی سے کن مذہبی گھن چکروں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔جو کسی جونک کی طرح انکے مال، اولاد، وقت،عزت، ایمان سب کو چوس چوس کر موٹے ہو رہے ہیں۔
سینتالیس سال عمر۔۲ ستمبر ۱۹۰۵ ” سینتالیس سال کی عمر، اِنّاَ لِلہ و اِنّاَ اِلَیہ راجِعُون۔( اسکے دوسرے دن ۳ ستمبر ۱۹۰۵ کو ایک شخص کا خط آیا۔ جس نے اپنی بدکاریوں اور غفلتوں پر افسوس کی تحریر کر کے لکھا، اب میری عمر سینتالیس سال کی ہے،اِنّاَ لِلہ و اِنّاَ اِلَیہ راجِعُون)۔ فرمایا کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جو خط باہر سے آنے والا ہوتا ہے اس کے مضمون سے پہلے ہی اطلاع دی جاتی ہے۔“ تذ کرہ،صفحہ ۵۵۷،شا ئع کردہ اکتوبر 1956، بمقام ربوہ ۔اسی صفحہ پر تذ کرہ کے مرتب نے لکھا ہے کہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ یہ الہام مولوی عبدالکریم کی وفات کے متعلق تھا ، مگر ہم اس بات کو تسلیم اس لئے نہیں کر سکتے کہ ایک تو مرتب کے کئے ہوئے معنی یا تشریح ، انکے نبی کی تشریح کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے، کیونکہ مرزا جی کا اپنا فرمان ہے کہ، ”ملہم سے زیادہ کوئی الہام کے معنی نہیں سمجھ سکتا“۔ تتمہ حقیقت الوحی/ ر۔خ،ج۲۲/ ص438۔ اب اگر کوئی کہے کہ بعد میں مرزا جی نے بھی اپنے معنی یا تشریح بدل لی تھی اورتتمہ حقیقت الوحی میں مرزا جی نے ان الہاموں کو مولوی عبد الکریم صاحب کے لئے قرار دے دیا، تو کوئی اس بات کا جواب دے گا کہ مرزا جی کا کونسا الہام ہے جس کی تشریح میں یا سمجھنے میں انکو غلطی نہیں لگی؟ مثال کے طور پر مصلح موعود والے الہام میں، اپنی عمر کے بارے میں الہام میں، محمدی بیگم کے الہام میں، عبداللہ آتھم کے الہام میں، ڈاکٹر عبدالحکیم کے الہام میں،شہزادہ عبداللطیف کے الہام میں اور اسی طرح بہت سے دوسرے الہاموں میں؟ اور مرزا جی کے اس دعوے کو کیا کہیں گے کہ ” خدا مجھے ایک لمحہ غلطی پر قائم رہنے نہیں دیتا“ ؟

جھوٹ کی وہی ملمع کاری - حصہ دوم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد

حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا میں جاتا ہوں مگر تم دیکھ لینا کہ ان کی تکلیف کو دیکھ کرمجھے دورہ ہو جائیگا۔خیر حضرت صاحب نے پگڑی منگا کر سر پر رکھی اور ادھر جانے لگے، میں جلدی سے سیڑھیاں چل کر آگے چلی گئی۔ تاکہ مولوی صاحب کو اطلاع دوں کہ حضرت صاحب تشریف لاتے ہیں، جب میں نے مولوی صاحب کو جا کر اطلاع دی ، تو انہوں نے اُلٹامجھے ملامت کی کہ تم نے حضرت صاحب کو کیوں تکلیف دی؟ کیا میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں تشریف نہیں لاتے؟ میں نے کہا کہ آپ نے خود تو کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو میں نے دل کا دکھڑا رویا تھا۔ تم فوراً جاواورحضرت صاحب سے عرض کرو کہ تکلیف نہ فرمائیں۔ میں بھاگی گئی تو حضرت صاحب سیڑھیوں کے نیچے کھڑے اوپر آنے کی تیاری کر رہے تھے، میں نے عرض کر دیاکہ حضور آپ تکلیف نہ فرماویں۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سے بہت محبت تھی اور یہ اسی محبت کا تقاضہ تھاکہ آپ مولوی صاحب کی تکلیف کو نہ دیکھ سکتے تھے، چنانچہ باہر مسجد میں کئی دفعہ فرماتے تھے، کہ مولوی صاحب کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے مگر میں انکی تکلیف دیکھ نہیں سکتا۔ چنانچہ مولوی صاحب آخر اسی مرض میں فوت ہو گئے مگر حضرت صاحب انکے پاس نہیں جا سکے۔ بلکہ حضرت صاحب نے مولوی صاحب کی بیماری میں اپنی رہائش کا کمرہ بھی بدل لیا تھا، کیونکہ آپ جس کمرہ میں رہتے تھے وہ چونکہ مولوی صاحب کے مکان کے بالکل نیچے تھا اس لئے وہاں مولوی صاحب کے کراہنے کی آواز پہنچ جاتی تھی۔ جو آپ کو بیتاب کر دیتی تھی اور مولوی صاحب مرحوم چونکہ مرض کاربنکل میں مبتلا تھے اس لئے انکا بدن ڈاکٹروں کی چیر اپھاڑی سے چھلنی ہو گیا تھا اور وہ اسکے درد میں بےتاب ہو کر کراہتے تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم حضرت صاحب کے مکان کے اس حصہ میں رہتے تھے جو مسجد مبارک کے اوپر صحن کے ساتھ ملحق ہے۔ اس مکان کے نیچے خود حضرت صاحب کا رہائشی کمرہ تھا “۔ سیرت المہدی جلد ۱، صفحہ ۲۸۸۔۲۸۹، روایت نمبر ۳۰۱، مصنفہ مرزا بشیر احمد ایم اے،دوسرا ایڈیشن،دسمبر ۱۹۳۵۔
ویسے تو یہ روایت سب کچھ خود ہی اپنی زبان سے کہہ رہی ہے ، مولوی صاحب اسی مکان کے حصہ میں رہتے تھے، اور دوسری روایتوں کے مطابق مولوی صاحب اکاون(۵۱) دن اس تکلیف میں مبتلا رہ کربانونویں (۵۲) دن فوت ہوئے، لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے اتنا بھی نہ کیا کہ ایک شخص جس سے تمہارا قریبی تعلق تھا،اور تم پر قربان ہوتا تھا، جسکے ساتھ دوستی کے دعوے پبلک میں مسلسل کر رہے تھے لوگوں کو انکے صحت یاب ہونے کی تسلیاں دے رہے تھے ،اسکواپنے گھر کے ہی ایک حصہ میں ایک منٹ کے لئے ہی حال پوچھنے چلے جاو، نزع کے عالم میں مبتلا شخص کو بھی تو تسلی کا کوئی بول سنا دو۔ اوپر سے انکے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود احمد کا یہ دعویٰ ہے کہ،” مرزا جی کے بیٹے بشیر الدین محمود احمد جو بزعم خودمصلح موعود بھی کہلاتے ہیں ، لکھتے ہیں، ”کہ اس ( مرزا غلام احمد) نے ہمارے لئے اخلاقیات اور ضابطہ حیات کا مکمل ذخیرہ چھوڑا ہے،تمام ذی عقل انسانوں کو یہ ماننا پڑےگا کہ ان پر عمل کرنے سے ہی مسیح موعود کی آمد کے مقاصد کی تکمیل ہو سکتی ہے“۔احمدیت یا سچا اسلام ص 56۔( اسپر کسی اور مضمون میں کہ کس نے مکمل ضابطہ اخلاق چھوڑا ہے) اگر دوستی کا نہیں پاس تھا تو آدمی کسی معمولی تعلق والے بلکہ کسی غیر کے بارے میں بھی سنتا ہے کہ وہ بستر مرگ پر، اسکو صرف ایک نظر دیکھنے کے لئے یا ایک لفظ سننے کیلئے زار زار روتا ہے تو سنگدل سے سنگدل انسان مرنے والی کی خواہش پوری کر دیتا ہے مگر مرزا جی ایسے شقی القلب تھے کہ مولوی کریم مرتے مر گئے مگر یہ ایک لمحے کے لئے بھی انکو دیکھنے نہ گئے ،حالانکہ درد سے کراہنے کی آواز بھی سنتے تھے پھر بھی ترس نہ آیا، بلکہ کمرہ ہی بدل لیا تاکہ بے آرامی نہ ہو ، لوگ تو ایک پھانسی پانے والے مجرم کی بھی آخری خواہش پوری کر دیتے ہیں ، لیکن انکو بیماری لگ جانے کے ڈر سے دوستی ، محبت ،پیار،مخلص مرید،نماز کا امام، کچھ بھی نہ یاد رہا ، بیمار پرسی کی کوئی حدیث یاد نہیں آئی۔ مولوی کریم صاحب کی بیماری کے دوران صحت کے الہامات سناتے رہے اور موت کے بعد مریدوں کو سناتے پھرے کہ مجھے انکی کمی محسوس ہوتی ہے ، تاکہ بدزن نہ ہو جائیں ،لیکن بقول شاعر ،

” پاس سے گزر گئے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ میں کیسے یقین کر لوں کہ تم دور جا کے روئے “ ۔اور جب بظاہر تیار بھی ہوئے تو وہ بھی بیگم کے کہنے پر، ویسے بھی عورتیں یہ کہتی تھیں ” کہ مرجا بیوی دی بڑی گل مندا اے“، اور بیگم بھی کیسے منا رہی ہیں ، کہ” جب انکی اتنی خواہش ہے تو کھڑے کھڑے ہو آئیں“، یعنی آپ پر نہ تو ایک گھر میں رہنے کا پاس ہے ، نہ کوئی مرید کا حق ہے، نہ کوئی دوستی کا فرض ہے، نہ اس شخص کی قربانیوں کا کوئی احساس ہے، بس ہاں اب مجبوری ہے کہ ایک مرتے ہوئے شخص کی خواہش ہے بس کھڑے کھڑے ہو آئیں ، مطلب شلجم سے مٹی جھاڑ آئیں، اب مرزا جی بھی ایک تو جانتے تھے کہ مرض الموت میں مبتلا ہیں، دوسرے اپنے مرید کی غیرت والی طبیعت سے بھی یقیناً خوب واقف تھے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے جو خواہش کا اظہار کیا ہے ، بس دل کا دکھ ہے، ورنہ وہ بھی مرزا صاحب کو جان گئے ہیں، اور اس وقت ہوش حواس میں بھی ہیں ، اپنے صحن سے اوپر چھت پر جانے کے لئے تیاری میں اتنا وقت لے لیا کہ مولویانی جی جا کر ان کو بتا دیں کہ مرزا جی اوپر تشریف لانے کے لئے مجبوراً پَر تول رہے ہیں، تاکہ وہ منع کر دیں اور مرزا جی کی توقع کے عین مطابق مولوی صاحب نے منع کر دیا، بیوی کے بیان میں مولوی صاحب کے الفاظ انکی غیرت اور عزت نفس کے عود کر آنے کا حال بتا رہے ہیں کہ” انہوں نے کہا کہ مرزا جی اوپر آنے کی تکلیف نہ کریں“، مرزا صاحب سیڑھیوں کے قریب کھڑے اسی بات کا انتظار کر رہے تھے ، جونہی مولویانی جی نے آ کر مرزا صاحب کو مولوی صاحب کا پیغام دیا۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا،مرزا جی دل میں خوش ہوتے ہوئے رُک گئے اور انکی موت تک بھی چھت تک جا کر ایک نزع کے عالم میں مبتلا دوست کو نہ دیکھا، نہ اسکی آخری اور شدید خواہش پُوری کی، خواہش کو تو چھوڑیں ایسی حالت میں تو حق ہمسائیگی کے تحت ہی(بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی) انسان اپنے دل پر اور طبیعت پر قابو پا کر دو بول تسلی کے دینے چلا جاتا ہے ، بلکہ محلے میں ، بلکہ تھوڑی سی جان پہچان والے کا بھی پتہ چلے تو انسان حال پوچھنے چلا جاتا ہے۔ بہانہ یہ کہ میں انکی تکلیف دیکھ نہیں سکتا، اتنا بودا بہانہ ہے کہ انسان ہنس ہی سکتا ہے۔ مرزا جی کے سامنے انکے والد اور بھائی مر گئے، چھ بچوں نے وفات پائی کیا، اور ان سب سے بڑھکر انکی والدہ نے وفات پائی۔ انکی بیماری اور تکلیف دیکھی یا نہیں، اگر اسکو برداشت کر لیا اور دورہ نہیں پڑا تو کیا اب ایک جانثار مرید کی سخت بیماری کے وقت ہی دورہ پڑنا تھا ؟اور شقی القلبی یہاں تک ہی نہیں بلکہ جسکو اسکی زندگی میں اور مرنے کے بعد پبلک میں اپنا قریبی دوست بتاتے رہے اسکی موت پر ایک آنسو بھی نہیں بہایا۔ میں کوئی بے بنیاد بات نہیں کہہ رہا، بلکہ مرزا صاحب کی سیرت پر لکھی کتاب کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔ مرزا جی کے مرید مفتی محمد صادق کی بیان کردہ روایت کے مطابق”اورحضرت مولوی عبد الکریم کی وفات پرمیں نے بہت غور سے دیکھا مگر میں نے آپ کوروتے نہیں پایا“ روایت 433، سیرت المہدی/ ج۲/ ص ۱۰۵/مصنفہ مرزا بشیر احمد ایم اے۔

جھوٹ کی وہی ملمع کاری - حصہ اول

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد

جھوٹ کی وہی ملمع کاری
جو پہلے تھی سو اب ہے

کچھ عرصہ قبل روزنامہ الفضل ربوہ نظر سے گزرا، اس میں ایک مضمون مرزا غلام احمد قادیانی کے قریبی ساتھی کے بارے میں بعنوان ” حضرت مولانا عبدالکریم سیالکوٹی“ مصنفہ بشیر احمد رفیق پر جب نظر پڑی تو اس میں فاضل مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عبدالکریم سیالکوٹی صاحب کی وفات مرزا جی کے الہامات کے مطابق ہوئی ہے، حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے( غالباً سوائے ایک الہام کے)۔اور اس ڈھول کا پول پہلے بھی کئی علمائے کرام کھول چکے ہیں، خاص طور پر مولانا ثناءاللہ امرتسری تو اچھی طرح کھول چکے ہیں کیونکہ مرزا جی نے مولانا ثناءاللہ امرتسری کو مخاطب کر کے ہی تو مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کی وفات اپنے الہامات کے مطابق قرار دی تھی۔ اس موضوع پر تو آگے چل کر حقائق پیش کرونگا، لیکن اس سے قبل مولوی عبدالکریم صاحب کا تعارف اور مرزا جی سے انکا تعلق اور مرزا صاحب کی”وفا کیشیوں “ کا کچھ ذکر ہو جائے !
مولانا عبد الکریم سیالکوٹی پہلے سر سید احمد خان کے حلقہ بگوش تھے، ۱۸۸۸ میں حکیم نور الدین صاحب بھیروی کی وساطت سے مرزا صاحب سے ملاقات ہوئی ، اور۱۸۹۵ میں مستقل طور پر قادیان آ گئے اور مرزا صاحب کے مکان کے ایک حصہ میں رہائش پذیر ہوئے اور مرزا جی کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں انکا شمار ہوتا ہے۔ایک اس واقعہ سے بھی مرزا جی کے ساتھ انکا گہراتعلق ظاہر ہوتا ہے کہ ایک بار گرمی کے موسم میں دوپہر کے وقت ایک کمرے میں کوئی داخل ہوا تو دیکھا کہ مولوی عبدالکریم صاحب چارپائی کے اوپر سو رہے ہیں اور مرزا جی اس چارپائی کے نیچے لیٹے ہوئے ہیں(یہ نہیں کہ ایک طرف بلکہ عین چارپائی کے نیچے)، دیکھنے والے نے پوچھا کہ یہ کیا ؟آپ” چارپائی کے نیچے“ کیوں لیٹے ہوئے ہیں ؟ تو جواب میں مرزا جی کہنے لگے کہ میں پہرہ دے رہا ہوں کہ مولوی صاحب سوئے ہوئے ہیں، کہیں بچے آ کر انکو نہ جگا دیں، اور بھی ایسے کئی واقعات ہیں جن سے مولوی عبدالکریم صاحب کا مرزا جی سے قریبی تعلق ظاہر ہوتاہے ۔اور مرزا جی نے بھی انکو الہاماً(حقیقتاً الزاماً) مسلمانوں کا لیڈر قرار دے دیا تھا،غرضیکہ ظاہراً دونوں میں من و تو کا تعلق تھا۔ ظاہراً اس لئے کہ مولوی عبد الکریم تو آخری سانس تک مرزا جی پر فریفتہ و شیدا رہے ، لیکن کیا مرزا جی بھی حقیقتاً اسی طرح انکی چاہت کرتے تھے؟ فاضل مضمون نگار نے مولوی عبدالکریم کی مرزا جی سے محبت کا نقشہ یوں کھینچا ہے ، لیکن بغیر کسی حوالے کے ، حوالہ اس لئے نہیں دیا کہ کوئی پوری روایت نہ پڑھ لے ،کیونکہ پوری روایت پڑھنے کے بعد کئی سوال پیدا ہوتے ہیں ۔لکھتے ہیں،” آپ ذیابطیس کے مریض تھے، اس پر کاربنکل کا پھوڑا نکل آیا اور انتہائی تکلیف اور کرب میں مبتلا ہوئے، آپکی اہلیہ کا بیان ہے کہ ،جب مولوی عبدالکریم صاحب بیمار ہوئے اور ان کی تکلیف بڑھ گئی تو بعض اوقات شدت تکلیف کے وقت نیم غشی کی سی حالت میں وہ کہا کرتے تھے، سواری کا انتظام کرو میں حضرت صاحب سے ملنے جاونگاگویا وہ سمجھتے تھے کہ میں کہیں باہر ہوں اور حضرت صاحب قادیان میں ہیں اور بعض اوقات کہتے تھے اور ساتھ ہی زارو قطار رو پڑتے تھے کہ دیکھو میں نے اتنے عرصہ سے حضرت صاحب کا چہرہ نہیں دیکھا۔ تم مجھے حضرت صاحب کے پاس کیوں نہیں لے جاتے۔ ابھی سواری منگاواور مجھے لے چلو۔ ایک دن جب ہوش تھی کہنے لگے، جاوحضرت صاحب سے کہو کہ میں مرچلا ہوں، مجھے صرف دور سے کھڑے ہو کر زیارت کرا دیں اور بڑے روئے اور اصرار کے ساتھ کہا کہ ابھی جائو۔ روزنامہ الفضل ربوہ،28 جنوری 2005 صفحہ 3 ، کالم 4، جلد 55۔90، نمبر 24۔
فاضل مضمون نگار نے روایتی قادیانی ابلہ فریبی سے کام لیتے ہوئے صرف آدھی روایت لکھی ہے، اور آگے مرزا جی کا طرز عمل نہیں لکھا کہ کہیں کوئی باضمیراحمدی یہ نہ سوچ لے کہ کیا ایک نبی کا یہی طرز عمل ہوتا ہے؟ کیا جس شخص کا دعویٰ یہ ہو کہ وہ (نعوذ باللہ) عین محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے، اسکی رحمت کا یہی نمونہ ہونا چاہئے؟ کیا وفا کیشی ، دوستی اور تعلق نبھانا یہی ہوتا ہے؟یہ سوال جو میں اُٹھا رہا ہوں ، پوری روایت پڑھنے کے بعد ہر باضمیر اور درد دل رکھنے والے انسان کے دل میں پیدا ہونگے،اب آگے روایت کا باقی حصہ خاکسار باحوالہ لکھ دیتا ہے، یہ روایت مرزا بشیر احمد، ایم اے، پسر مرزا صاحب نے بیوہ مولوی عبدالکریم کے حوالہ سے لکھی ہے اور وہیں سے شروع کرونگا جہاں سے فاضل مضمون نگار نے چھوڑا ہے۔” میں نیچے حضرت صاحب کے پاس آئی۔ کہ مولوی صاحب اس طرح کہتے ہیں۔ حضرت صاحب فرمانے لگے کہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیا میرا دل مولوی صاحب کو ملنے کو نہیں چاہتا؟ مگر بات یہ ہے کہ میں انکی تکلیف دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ مولویانی مر حومہ کہتی تھیں کہ اس وقت تمہاری والدہ پاس تھیں۔ انہوں نے حضرت صاحب سے کہا کہ جب وہ اتنی خواہش رکھتے ہیں تو آپ کھڑے کھڑے ہو آئیں۔

حرامی کون - حصہ ششم

Written by شیخ راحیل احمد
Page 6 کا 6
۴۱:۔اور برتری کا کیڑا دماغ میں ہر وقت رینگتا رہتا تھا اسنے چین نہ لینے دیا اور جب اپنی قبر کے بارے میں لکھنے لگا تو دیکھئے ، اس بہروپئے اور نام نہاد عاشق رسول کے الفاظ کیا ہیں؟ اپنی قبر کے بارے میں مرزا صاحب کیا لکھتے ہیں، ”ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے، تب ایک مقام پر پہنچ کر اس نے مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے۔ پھر ایک جگہ مجھے ایک قبر دکھلائی گئی کہ وہ چاندی سے زیادہ چمکتی تھی اور اسکی تمام مٹی چاندی کی تھی۔ تب مجھے کہا گیا کہ یہ تیری قبر ہے“۔ الوصیت/ر خ ، ج۲۰/ص ۳۱۶۔کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ مرزاغلام اے قادیانی کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں بغض تھا، محبت کا نعرہ صرف اس لئے لگاتا تھا کہ اسکے ۹۹ فیصد مرید مسلمانوں کو گمراہ کرنے سے حاصل ہوئے ہیں،حقیقتاً وہ دشمن رسول تھا !جن کو حقیقت ظاہر ہوتی جا رہی ہے وہ قادیانیت پر لعنت بھیج کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آ رہے ہیں۔

۴۲:۔دیکھیں مرزا جی کس صفائی کے ساتھ خاتم الانبیاءبھی بن گئے، لکھتے ہیں ، ”مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں۔ اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے۔ کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے“۔کشتی نوح / ر خ ، ج ۱۹ / ص ۶۱ ۔ کیا اس تحریر کے بعد کوئی شُبہ رہ جاتا ہے کہ مرزا قادیانی خاتم الانبیاءہونے کے دعویدار نہیں؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۴۳:۔اور پھر فرماتے ہیں”اُس (خدا) نے ہر نبی کو جام دیا ہے مگر وہی جام مجھے لبا لب بھر کر دیا ہے“۔نزول المسیح / رخ ،ج۱۸/ ص۴۷۷ ۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۴۴:۔”آسمان سے کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا“ ۔ حقیقت الوحی،رخ ص ۹۲/ ج ۲۲۔اب دیکھیں کہ مرزا صاحب نے کسی ایک نبی کی بھی تخصیص نہیں کی اور اپنے آپ کو ”سُپر نبی“ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اب ذرا ان دونوں حوالوں کو غور سے دیکھئے کہ دوسرا حوالہ بھی میرے پہلے حوالے سے اخذ کردہ مطلب کی تائید کرتا ہے یا نہیں،کہ سب نبیوں کو نبیوں کے سردار محمدصلی اللہ علیہ وسلم سمیت صرف جام دیا، لیکن مرزا جی کے لئے اور صرف مرزا جی کے لئے جام لبا لب بھر کر دیا۔ اگر کسی قاری کا خیال ہے کہ یہ دو حوالوں سے تشفی نہیں ہوتی کہ مرزا جی اپنے آپ کو تمام نبیوں سے بڑھکر سمجھتے ہیں۔قادیانی حضرات کہیں گے کہ نہیں یہ غلط مطلب ہے، لیکن آئیے مزید چیک کر لیتے ہیں کہ مرزا صاحب کے بیٹے بھی یہی تاثردیتے ہیں جو میرا تاثر ہے یا کہ نہیں،مرزا جی کے بیٹے بشیر الدین محمود احمد جو بزعم خودمصلح موعود بھی کہلاتے ہیں ، لکھتے ہیں ”کہ اس ( مرزا غلام احمد) نے ہمارے لئے اخلاقیات اور ضابطہ حیات کا مکمل ذخیرہ چھوڑا ہے،تمام ذی عقل انسانوں کو یہ ماننا پڑےگا کہ ان پر عمل کرنے سے ہی مسیح موعود کی آمد کے مقاصد کی تکمیل ہو سکتی ہے“۔احمدیت یا سچا اسلام /ص ۵۶۔ بڑے میاں تو بڑے میاں،چھوٹے میاں سبحان اللہ، دیکھیں ہم بطور مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں اور اس بات کی دوسرے مذاہب کے بہت سے انصاف پسند لوگ بھی تائید کرتے ہیں کہ انسانی اخلاق اور مکمل ترین ضابطہ حیات کا اصل ذخیرہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا ہے، اور ایک عام احمدی کو جب سوال کریں گے تو وہ بھی یہی کہے گا۔ لیکن یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اشارتاً بھی نہیں لیا جا رہا بلکہ ہر اچھائی کو مرزا صاحب سے منسوب کر کے اور (بزعم خود) ان کو سب سے بہتر قرار دیکر مرزا صاحب کے چھپے ہوئے ”سپر نبی“ کے دعوے کو مضبوط بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں، اورلا شعوری طور پرقادیانیوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ مرزا غلام احمد ایک ایسا سپر نبی ہے جسکے سامنے سارے نبی (نعوذباللہ)اَیویں ہی ہیں اور نبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم سمیت سب اسکے سامنے پانی بھرتے ہیں۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۴۵:۔اگر کوئی شبہ رہ گیا ہے تو اس حوالہ کو دیکھ لیں،مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیرالدین محمود، قادیانی خلیفہ دوئم اور مرزا کے الہامات کے مطابق اپنے آپ کو مصلح موعود قرار دینے والا، مرزا کے مقام کو واضح کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ، ” تمام انبیاءعلیہ السلام ( جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں) پر فرض ہے کہ مسیح موعود ( مرزا قادیانی ۔ ناقل) پر ایمان لائیں تو ہم کون ہیں جو نہ مانیں“۔الفضل قادیان / ج ۳ ، نمبر ۳۸ / ص ۶ /۱۹ ستمبر ۱۹۱۵۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

خدا بھی مرزا صاحب کے ارادہ کے تحت :۔

کیونکہ مرزا صاحب کا الہام ہے،” میں وہی ارادہ کرونگا جو تمہارا ارادہ ہے“۔ حقیقہ الوحی/ر خ ، ج ۲۲/ص۱۰۸۔ لو جی جس بندے نے خدا کو اپنے ارادہ کے تحت کر لیا وہ اپنے سامنے نبیوں کوکیا سمجھے گا؟ اس قسم کے حوالے تو بیشمار ہیں مگر اس مضمون میں ان سب حوالوں کاذکر نہیں ہو سکتا۔

جس نے لاہ دتی لوئی، اونہوں نا شرم کوئی:۔

اسکا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی بے شرم ہو گیا تو اسکا کوئی کیا بگاڑ لیگا۔ اور یہ بات مرزا صاحب اور انکی اولاد پر ثابت آتی ہے۔ کہ اس ہستی پر جس کے لئے زمین آسمان پیدا کیا گیا، جسکو خدا تعالےٰ نے رحمت اللعالمین کا خطاب دیا، جسکو نبیوں کا سردار بنایا گیا، جس کوکامل انسان بنایاگیا، اور جسکے نام پر نبوت کر رہے ہیں اور جسکے نام کا کھا رہے ہیں اسی ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر اس طرح کی گندہ دہنی جومرزا صاحب اور انکی اولاد نے دکھائی ہے ، کس کاکام ہو سکتا ہے؟ کسی حرامی کا حلالی کا؟

اس فقیر درِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلمنے جو حوالہ جات پیش کئے ہیں، یہ مرزا صاحب کی گستاخیوں، انکی اولاد کی دریدہ دہنیوں، اور انکی جماعت کے صاحب علم لوگوں روح شکن ، ایمان شکن تحریروں کے انباروں سے چند سطور ہیں،یہ سوال کرنے کے لئے کہ کیا یہ تحریریں ، سرور کائنات، رحمت اللعالمین، شفیع روز محشر، خاتم لنبیین ، ختم المرسلین، غریبوں کے ملجا و ماویٰ، محسن انسانیت ، حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ہتک ہیں یا نہیں؟؟؟

اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے اور ہر صاحب عقل ، صاحب ضمیر، کا جواب میرے نزدیک یقیناً ”ہاں“ہے !!! تو پھر مرزا صاحب کی تحریر ،

” جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی ایسا کلمہ زبان پر لائے گا۔ جس سے آپکی ہتک ہو وہ حرامی نہیں تو اور کیا ہے“۔

کے مصداق ایسی تحریریں لکھنے ، اور کہنے والاحرامی ہے یا نہیں ؟؟؟

اب کوئی بتائے گا کہ مرزا صاحب خود ، انکی اولاد، اورقادیانی جماعت کا( مذہبی)صاحب علم طبقہ ( لیکن براہ کرم اس میں عام احمدی کو نہ گنیں ، کیونکہ پچانوے فی صد عام احمدیوں کو ان باتوں کا علم ہی نہیں کہ مرزا صاحب کس قسم کا” علمی ذخیرہ“ چھوڑ گئے ہیں)،مرزا کے اپنے ہی فتویٰ کی رو سے کیا ہیں؟

حرامی ہیں یا نہیں؟

حرامی کون - حصہ پنجم

Written by شیخ راحیل احمد
Page 5 کا 6

۳۱:۔( دماغی مراق کے زیر اثر) اپنے خیال میں ہر ایک سے زیادہ روحانی طور پر بلند ہو گئے ” ان قدمی ھذہ علیٰ منارة ختم علیحا کل رفعۃ۔ ترجمہ: میرایہ قدم اس منارہ پر جہاں تمام روحانی بلندیاں ختم ہیں“۔خطبہ الہامیہ/رخ، ج۱۶ / ص۷۰۔ کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۳۲:۔ اور انکی اولاد تو یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ نعوذ باللہ کہ کوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ سکتا ہے، انکا بیٹا اور جماعت کا خلیفہ ثانی، و خود ساختہ مصلح موعود اپنی ڈائری میں لکھتا ہے، ” یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پا سکتا ہے حتیٰ کہ محمد رسول اللہ سے بھی بڑھ سکتا ہے“۔ خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی ڈائری،اخبار الفضل قادیان، نمبر ۵ / ج ۱۰ / ۱۷ جولائی ۱۹۲۲۔ کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۳۳:۔مرزا بشیرالدین محمود کی بات اس لئے بھی اہم ہے کہ وہ اپنے آپ کو انبیاءبنی اسرائیل کی طرح نبی قرار دیتے ہیں، لکھتے ہیں، ” جس طرح مسیح موعود کا انکار تمام انبیاءکا انکار ہے اسی طرح میرا انکار تمام انبیاءبنی اسرائیل کا انکار ہے۔ جنہوں نے میری خبر دی۔ میرا انکار رسول اللہ کا انکار ہے۔ جنہوں نے میری خبر دی“۔ الفضل قادیان / ج ۵ ، نمبر ۳ / ۲۲ ستمبر ۱۹۱۷ ۔ لو جی پہلے ایک نبی کا رولا ہی ختم نہیں ہو رہا ، دوسرا بھی آ گیا۔ مرزا محمود تو دعویٰ کر کے راہی ملک عدم ہوئے لیکن اب کیا کوئی قادیانی بتا سکتا ہے کہ وہ کونسے صحیفے ہیں / آیات ہیں یا احادیث ہیں ، جن میں انبیائے بنی اسرائیل نے یا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مرزا محمود کی خبر دی؟

۳۴:۔مرزا محمود نے یہ دعویٰ ایسے ہی نہیں کیا ۔ کیونکہ مصلح موعود والی پیشگوئی میں مرزا قادیانی نے اس پیشگوئی کے مصداق کو فخر رسل کہا ہے ، اس لئے مرزا محمود نے اپنے آپ کو، اور اس کے کاسہ لیسوں نے بھی اسکو فخر رسل کا بھی خطاب دیا ہوا ہے، حالانکہ اس جیسے انسان کے لئے خر رُسل کا خطاب بھی ایک خَر کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ مرزا قادیانی لکھتے ہیں، ” اے فخر رسل قرب تو معلومم شد ۔ دیر آمدہاز راہِ دور آمدہ “۔ایسے شخص کو فخر رسل قرار دینا ، جسکے سیاہ کردار پر بیسیوں لوگوں نے موکد بعذاب قسمیں کھاکر الزامات لگائے ہیں اور اسکی طرف سے کوئی معقول جواب بھی نہیں آیا،کیا یہ تمام انبیاءاور کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۳۵:۔اب دیکھیں کس طرح اپنی ذات کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھانے کے لئے ایک بے بنیاد سہارا لیتے ہوئے اپنی بڑائی کو دجل سے پیش کرتے ہیں، لکھتے ہیں،” اسکے لئے چاند کے خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لئے چاند اور سورج دونوں کا، اب کیا تو انکار کریگا“۔ اعجاز احمدی، ضمیمہ نزول مسیح/ ر خ ، ج ۱۹/ ص ۱۸۲۔ کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۳۶:۔ یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت کو مرزا کے بروز کی شکل دیکر خود وہ صورت اختیار کرتے ہیں ، لکھتے ہیں،” ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کہ پانچویں ہزار میں مبعوث ہوئے، ایسا ہی مسیح موعود کی بروزی صورت اختیار کر کے چھٹے ہزار کے آخر میں مبعوث ہوئے“۔خطبہ الہامیہ/ ر خ ، ج ۱۶ / ص ۲۷۰۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۳۷:۔فرماتے ہیں،”اس زمانے میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راست باز اور مقدس نبی گزر چکے ہیں، ایک ہی شخص کے وجود میں انکے نمونے ظاہر کئے جائیں تو وہ میں ہوں“ ۔ براہین احمدیہ پنجم/رخ ، ج۲۱/ص ۱۱۷ و ۱۱۸۔اب آپ دیکھیں کہ اللہ تعالےٰ کے قرار دئے ہوئے نبیوں کے سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس قسم کا دعویٰ نہیں کیا ، حالانکہ نبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام انبیاءکی خوبیاں، اللہ تعالےٰ یکجا کر دی تھیں لیکن مرزا نے یہ دعویٰ کر دیا۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۳۹:۔لیکن بات صرف یہاں تک ہی نہیں رہتی بلکہ جس طرح خود پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کے خلاف کرتے رہے اور شریعت و اخلاق کا جنازہ نکالتے رہے ، پنجابی کہاوت کہ” چور دوسروں کو کہے چور“ کے مصداق،نعوذ باللہ من ذالک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گرا ہوا انسان ثابت کرنے کی ناپاک کوششیں کیں ،اور بے بنیاد اتہامات انکی ذات اقدس پر لگانے کی کوشش کی، کئی مثالیں ہیں لیکن صرف تین مثالیں پیش کرونگا۔خنزیر جسکی حرمت مذہب اسلام نے بیان کی ہے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی بھی اس حرمت کو قائم اور دائم رکھنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا، ان کی ذات اقدس پر یہ گندے، ذلیل ، کراہیت آمیز الزام لگاتے ہوئے مرزا کا قلم کانپانہ حیا آیا، نہ خدا خوفی محسوس ہوئی، ہوتی بھی کیسے اپنے آپ کو کائنات کا افضل ترین انسان جو سمجھتے تھے۔

لکھتے ہیں، ” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے اصحاب عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے حالانکہ مشہور تھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے “۔ مرزا صاحب کا مکتوب / اخبار الفضل قادیان، ۲۲ فروری ۱۹۲۴ ۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

دوسری جگہ لکھتے ہیں، ”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کنواں سے پانی پیتے تھے جس میں حیض کے لَتے پڑتے تھے“۔ منقول از اخبار ” الفضل “ قادیان / ص ۹ / مورخہ ۲۲ فروری ۱۹۲۴ ۔ کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

اور اسی خط میں صحابہ کے بارے میں لکھا ہے کہ”۔ صحابہ کسی مرض کے وقت اونٹ کا پیشاب بھی پی لیتے تھے“۔ استغفراللہ۔ کس طرح بالواسطہ طور پر ذہن میں ڈالنے کی ناپاک کوشش ہے کہ جو پلید ترین شے جس کے چھینٹے بھی حرام ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ اسکو پی بھی لیتے تھے، کیا یہ بات براہِ راست توہین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمرہ میں نہیں آتی؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۴۰:۔مرزا صاحب کا مزید بغض یہاں دیکھیں کہ ان کی ہر قسم کی تاویلوں، دلیلوں، تحریروں کے باوجود کس طرح ننگا ہوتا ہے، مرزا صاحب اس ذات کے روضہ پاک ، جن کو کمزور سے کمزور، گناہ گار سے گناہ گار مسلمان بھی، دیکھنا، چومنا، اس جگہ کی خاک کو اپنے منہ پر ملنا دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر سمجھتا اور کرتاہے، اس پاک جگہ کے بارے میں خود ساختہ اور جعلی عاشق رسول مرزا صاحب کے خیالات کیا ہیں، بظاہر حضرت عیسیٰ پر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری ظاہر کرنا چاہتے ہیں، لیکن بغض چھپ نہیں سکا، لکھتے ہیں، ” خدا تعالےٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چھپانے کے لئے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو نہایت متعفن اور تنگ اور تاریک اور حشرات الارض کی نجاست کی جگہ تھی“۔تحفہ گولڑویہ /ر خ، ج ۱۷/ ص ۲۰۵، حاشیہ۔ اور یہ خیالات اس جگہ کے بارے میں لکھے جا رہے ہیں ، جس جگہ کے بارے میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ” میرے گھر اور میرے منبر کا درمیانی حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے“۔سراج المنیر،شرح جامع الصغیر، ص۲۴۶/ بحوالہ ثبوت حاضر ہے ،مصنفہ محمد متین خالد۔آپ خود سوچیں ، چاہے موازنہ ہو یا کچھ اور کیا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنیوالا، انکا ظل ہونے کا دعویٰ کرنے والا، عین محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا دعویٰ کرنیوالا، انکی غلامی کا دعویٰ کرنیوالا، انکی پیشگوئیوں کے مصداق آنیوالا، اگر واقعی ہی سچا مدعی ہے تو کیا ایسے الفاظ لکھ سکتا ہے؟ کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

حرامی کون - حصہ چہارم

Written by شیخ راحیل احمد
Page 4 کا 6
۲۱:۔بات اسی طرح بڑھاتے بڑھاتے مرزا صاحب اپنے آپ کو نبی کریم سے افضل ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی روحانیت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت سے بہتر ثابت کرنے کے لئے کیا الہامی عبارت لکھتے ہیں،”اور جس نے اس بات کا انکار کیا کہ نبی علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی پس اس نے حق کااور نص قرآن کا انکار کیا۔ بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی ان دنوں میں بہ نسبت ان سالوں کے اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے۔ بلکہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے“۔ خطبہ الہامیہ / ر خ ، ج ۱۶/ ص ۲۷۱ و ۲۷۲۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۲۲:۔آپ نے دیکھا کہ کس طرح شروع میں اپنے آپکو صرف ظل یعنی سائے کی حیثیت سے پیش کر کے آہستہ آہستہ اونٹ کی طرح مالک کو خیمے سے ہی بے دخل کیا جا رہا ہے ۔ مرزا صاحب نے ظل اور برُوزکے نام سے در اصل اپنی ضلالت اور ذلت اور نا شکری کا جو سفر شروع کیا تھا، اسکا کہیں اختتام نظر نہیں آتا۔ اور یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں پہلے دئے گئے اور آئندہ پیش کئے جانے والے حوالوں سے روز روشن کی طرح ثابت ہو رہی ہے اور ہو گی ، اور یقیناً آپ بھی اس کی تائید کریں گے کہ یہ نہ صرف ہتک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہے بلکہ اشد ترین ہتک ہے۔

۲۳:۔ اب اپنی برتری کی دلیل کو مضبوط کرنے کے لئے مزید لکھتے ہیں، ” اور ظاہر ہے کہ فتح مبین کا وقت ہمارے نبی کریم کے زمانہ میں گزر گیا اور دوسری فتح باقی رہی کہ پہلے غلبہ سے بہت بڑی اور زیادہ ظاہر ہے اور مقدر تھا کہ اسکا وقت مسیح موعود( مرزا جی۔ناقل ) کا وقت ہو،“۔خطبہ الہامیہ/ ر خ ، ج ۱۶/ ص ۲۸۸۔ اسکے بعد بھی کوئی شک رہ جاتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کیا کہنا چاہتے ہیں؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۲۴:۔اگر کسی کوابھی بھی شبہ ہے کہ مرزا صاحب کی اُمت انکو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے برتر نہیں سمجھتی تو مرزا بشیر الدین محمود کا حوالہ پیش خدمت ہے، ” مسیح موعود نے خطبہ الہامیہ میں بعثت ثانی کو بدر کا نام رکھا ہے اور بعثت اول کو ہلال جس سے لازم آتا ہے کہ بعثت ثانی کا کافر بعثت اول کے کافروں سے بد تر ہے “ ۔ الفضل قادیان / ص ۴ / ۱۵ جولائی ۱۹۱۵۔ اس سے انتہائی واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مرزانعوذباللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بر تر ہے، کونکہ اگر بعثت ثانی کا کافر بعثت اول کے کافر سے بد تر ہے تو پھر بعثت ثانی ، بعثت اول سے یقیناً بہتر ہے ۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۲۵:۔اپنی برتری جتانے اور غیر محسوس طریق سے لوگوں کے ذہن میں ڈالنے کے لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی کیونکہ مرزا صاحب پر یہ صحیح اعتراض بڑی شدت سے انکی ہر پیشگوئی پر لاگو ہوتا ہے اور اسکی شدت کو کم کرنے کے لئے یہ گھٹیا طریقہ اپنایا گیا ، بظاہر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تین ہزار معجزوں کا ذکر ہے لیکن تحریر کے سمجھنے والے اسی نتیجہ پر پہنچیں گے جس پر میں پہنچا ہوں، لکھتے ہیں،” مثلاً کوئی شریر النفس ان تین ہزار معجزات کا کبھی ذکر نہ کرے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہور میں آئے اور حدیبیہ کی پیشگوئی کو بار بار ذکر کرے کہ وہ وقت اندازہ کر دہ پر پوری نہ ہوئی،“ تحفہ گولڑویہ / ر خ، ج ۱۷/ ص۱۵۳۔ سمجھ دار آدمی فوراً بات کی تہہ کو پہنچ جاتا ہے کہ یہاں مقصود تین ہزار معجزوں کا ذکر نہیں بلکہ اپنی ناکام، بے بنیاد، نہ پوری ہونے والی پیشنگوئیوں کے دفاع کے لئے ایک بنیاد مہیا کرنے کی بے سود کوشش کی جا رہی ہے !!!

۲۶:۔اور اپنے آپ کو( بظاہر) غیرشعوری طور پر بر تر دکھانے کے لئے اپنے نشانوں کو دس لا کھ لکھتے ہیں اور ایک اور جگہ پچاس لاکھ بھی لکھا ہے ، اور مزے کی بات کہ چند سطروں میں دس لاکھ نشانات سمودئے،پڑھئے اور سر دھنئے،” ان چند سطروں میں جو پیش گوئیاں ہیں، وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس لاکھ سے زیادہ ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اول درجہ پر خارق عادت ہیں“۔ براہین احمدیہ ۵ / ر خ، ج ۲۱/ ص ۱۷۲۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۲۷:۔خارق عادت اسکو کہتے ہیں جس میں کوئی انسانی ہاتھ نظر نہ آئے اور جسکی مثال اس سے پہلے نہ ہو۔ میری قادیانی دوستوں سے اپیل ہے کہ دس لاکھ کو بھول جاتے ہیں، ایک لاکھ بھی نہیں، دس ہزار بھی نہیں، ایک ہزار بھی نہیں، صرف سو (۱۰۰)ہی خارق عادت نشان دکھا دیں، چلو یار، دس ہی دکھا دو؟ بھائی اگر خارق عادت ممکن نہیں تو دوسرے نشانات / کرامات ہی دکھا دو ؟

۲۹:۔ممکن ہے کہ کوئی قادیانی دوست اپنے دل کی تسلی کے لئے یا بحث برائے بحث کے لئے کہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ہیں اورمرزا صاحب کے نشانات ہیں اور معجزات اور چیز ہیں اور نشانات اور چیز، انکی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مرزا صاحب نے نشان اور معجزہ ایک ہی چیز قرار دئے ہیں، لکھتے ہیں،” امتیازی نشان جس سے وہ شناخت کیا جاتا ہے پس یقیناً سمجھو کہ سچا مذہب اور حقیقی راست باز ضرور اپنے ساتھ امتیازی نشان رکھتا ہے اوراسی کا نام دوسرے لفظوں میں معجزہ اور کرامت اور خارق عادت امر ہے“۔ براہین احمدیہ۵/ ر خ ، ج ۲۱/ ص ۱۶۳۔

۳۰:۔ اس فقیر نے جو نقطہ نظر پیش کیا ہے کہ مرزا صاحب اپنی نظر میں و اپنی اولادا و رجماعت کے با علم طبقہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بر تر تھے یا نہیں ،یہ حوالہ دیکھئے انکے ایک صحابی کا،

محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں ۔ اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں

محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل ۔ غلام احمد کو دیکھے قادیان میں

اخبار بدر قادیان ، ۲۵ اکتوبر ۱۹۰۶۔اور اس نظم پر مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا ، بلکہ وہ قطعہ گھر کے اندر لے گئے اور وہاں اپنے کمرے میں اسکو لٹکایا(بھائی اپنے صحابی کو نہیں بلکہ اسکی پیش کردہ نظم کو)۔ کاش کوئی غیرت مند اسوقت مرزا صاحب اور انکے اس صحابی قاضی ظہور الدین اکمل کو الٹا لٹکا دیتا تو لاکھوں لوگوں کے ایمان تباہ ہونے سے بچ جاتے ۔ اور یہ مرزا صاحب کی وفات سے تقریباً پونے دو سال قبل کی بات ہے ، اسکا مطلب ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اپنی جماعت کے ذہنوں میں بہت اچھی طرح بٹھا چکے تھے۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

حرامی کون - حصہ سوم

Written by شیخ راحیل احمد
Page 3 کا 6
۱۰:۔ہو سکتا ہے کہ کوئی قادیانی دوست کہے کہ یہ فقیر اسکا غلط مطلب نکال رہا ہے، آیا اسکا وہی مطلب نکلتا ہے یا نہیں ، میں اپنی بات کی تائید میں مرزا صاحب کے بیٹے کی تحریر پیش کرتا ہوں اور اس بیٹے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مرزا صاحب نے اپنے اس بیٹے کو قمر الا نبیاء کا الہامی خطاب دیا ہوا ہے، اور یہ (جھوٹے) نبیوں کے چاند لکھتے ہیں، ” ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت اس لئے پیش نہیں آتی کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے ۔ صار وجودی وجودہ نیز من فرق بینی و بین المصطفیٰ فما عرفنی و ماریٰ ( یہ الہامات مرزا صاحب ہیں۔ناقل) اور یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالےٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کریگا جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے، پس مسیح موعود (مرزا صاحب۔ناقل) خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے، اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں، ہاں اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی“۔ کلمۃ الفصل/ ص ۱۵۸/ مصنفہ مرزا بشیر احمد ایم اے، پسر مرزا قادیانی۔ لو کر لو گل ! جناب یہاں ہندووں کے عقیدہ کو اپناتے ہوئے تو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے با برکت وجود کے ساتھ ساتھ انکے کلمہ پر بھی ہاتھ صاف ہو گیا۔

۱۱:۔مرزا صاحب فرماتے ہیں، " بعض کاملین اس طرح پر دوبارہ دنیا میں آ جاتے ہیں کہ انکی روحانیت کسی اور پر تجلی کرتی ہے اور اس وجہ سے وہ دوسرا شخص گویا پہلا شخص ہی ہو جاتاہے۔ ہندوں میں ایسا ہی اصول ہے" براہین احمدیہ حصہ پنجم/ر خ، ج ۲۱/ص ۲۹۱۔

۱۲:۔ ہندووں کا کیا عقیدہ ہے تو یہ بھی انکی کتاب سے پڑھ لیجئے۔ ”جس طرح انسان پوشاک بدلتا ہے اسی طرح آتما (یعنی روح) بھی ایک قالب (بدن) سے دوسرے قالب(بدن) کو قبول کرتی ہے“۔ اشلوک ۱۲۲، ادھیائے۲، گیتا، بحوالہ احتساب قادیانیت،ج۱۱ / ص ۱۵۸۔کیا روح کا ایک بدن سے دوسرے بدن میں منتقل ہونا اسلامی عقیدہ ہے؟

۱۳:۔ اور پھر بالفرض محال اگر ہم مرزا صاحب کی تھیوری تسلیم کر لیں تو کیا خدا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ کوئی سزا دینا چاہتا تھا؟کیونکہ ہندووں کے عقیدہ کے مطابق خدا جب کسی آتما کو پہلے گناہوں کی سزا دینا چاہتا ہے تو وہ پہلے سے کمتر حالت میں دنیا میں بھیجتا ہے۔ اسی لئے سزا کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ نبی اپنے وقت کا ذہنی ، جسمانی، صحت ، شکل صورت کے لحاظ سے بہترین انسان ہوتا ہے ، اور ایک وقت میں تو اللہ تعالےٰ جسکو نبیوں کا سردار بنا کے اور دنیا کا بہترین و کامل انسان قرار دیکر مبعوث کرتا ہے اب اسکی روح کو ایک ذہنی بیمار، کم از کم۳۰ سے زیادہ جسمانی بیماریوں میں مبتلا جسم، اور مجہول والا حلیہ، گندے کپڑوں میں ملبوس،نا مرد، بھٹیارنوں کی طرح گالیاں دینے والی زبان، اور ہر روز اپنی پہلی بات سے مُکرکر خدا پر نیا الزام ( الہاموں کی نام پر) لگانے والے انسان کی شکل میں ہی بھیجنا تھا؟ کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۱۴:۔جو پاک وجود صلی اللہ علیہ وسلم ہزاروں درود سلام ہوں اس پر،پہلی عمر میں پتھر کھا کر خون میں تر بتر ہونے کے باوجود دعا دیتا تھا کیا اب اسکو ایسے انسان کے روپ میں بھیجنا تھا کہ جو نہ صرف دوسروں کو اشتعال دلاتا ہے بلکہ اگر کوئی اسکی یاوہ گوئیوں کا جواب لکھتا ہے تو آپے سے باہر ہو کر اس کتاب والے کو ہی نہیں جواب دینے والے کے پورے علاقے کو تا قیامت لعنتی قرار دیتا ہے؟ کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۱۵:۔ایک دنیا کا فتح یاب ترین اور ہر معرکے میں کامیاب ہونے والا جرنیل صلی اللہ علیہ وسلم جسکو خدا تعالےٰ ایک وقت میں قیصر اور کسریٰ کے دربار کی چابیاں دیتا ہے، کیا اب اسکو ایسے انسان کے روپ میں بھیجے گا کہ جو کافروں کی ملکہ کی بار بار منتیں کرتا ہے کہ میرے لاکھوں خوشامدی لفظوں کا صرف ایک لفظ ”شکریہ “ کہہ دو اور مجھے مزیدممنون ہونےکاموقع دو؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۱۶:۔جس شخص کے ذریعہ سے خدا نے دنیا سے کفر کے اندھیروں کو دور کیا ، کیا اسکو اپنے ہی دئے ہوئے دین کی تعلیم کے خلاف، اب ہندو مت کی کفریہ تعلیم جس سے کہ خود اس مذہب کے ماننے والے بھی دامن چھڑا رہے ہیں کے ذریعہ دوبارہ اس دنیا میں لائے گا؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۱۷:۔ ا ب مرزا صاحب اپنی وحی کے ذریعہ اپنی امت کو اپنے ( مرزا)پر درود بھیجنے کا حکم سنا رہے ہیں تاکہ برابری کا دعویٰ پکا ہو جائے اور اس ( خود ساختہ ) الہام میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا نام صرف اس لئے لگایا ہے کہ مرید بھی کہیں چونک نہ پڑیں اور کئے کرائے پر سوال نہ اُٹھ جائیں، ” صلیٰ اللہ علیک و علیٰ محمد “ تذکرہ ( الہامات مرزا صاحب کی کتاب)، ص ۷۹۴ ، طبع دوم] ۔ اور بات صرف رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ درود بھیجنے کی ہی نہیں بلکہ اس سے کہیں آگے تک جاتی ہے ؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۱۸:۔ اورمرزا صاحب پر درود بھیجنے کو تاکیداً اور فرض بنانے کے لئے کیا وحی ہوتی ہے لیکن ایک اہم بات جو غیر محسوس طریق پر مرزا صاحب نے اپنی اس وحی میں پیدا کی ہے کہ اب درود بھیجنے کے وقت صرف مرزا صاحب کا نام کافی ہے اور رسول پاک کا نام لینا اب ضروری نہیں کیونکہ صلحاءعرب اور شام کے ابدال صرف مرزا صاحب پر درود بھیج رہے ہیں اور انکے درود میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں اور انکی اس بات کی تائید زمین و آسمان کے ساتھ ( بغیر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو شامل کئے) اللہ بھی عرش سے تعریف کے ساتھ کر رہا ہے ،مرزا صاحب کی وحی ہے ، ” یصلون علیک صلحاءالعرب و ابدال الشام ۔ و تصلی علیک الارض و السماءو یحمدک اللہ من عرشہ ۔ ترجمہ : تجھ پر عرب کے صلحاءاور شام کے ابدال درود بھیجیں گے۔ زمین و آسمان تجھ پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ تعالےٰ عرش سے تیری تعریف کرتا ہے“۔ [ تذکرہ/ص ۱۶۸، طبع دوم]۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۱۹:۔آج مرزا صاحب کو مرے ہوئے سو سال ہو گئے، اگر ان کی زندگی میں نہیں تو موت کے بعد ہی بتا دیں کہ کونسے صلحائے عرب ہیں جنہوں نے مرزا صاحب پر درود بھیجا ہے ؟ شام کے وہ کونسے ابدال ہیں جو سلامتی بھیج رہے ہیں؟کیا قادیانی جماعت کسی واقعی صلحاءیا ابدال کے نام دے سکتی ہے ؟، جنکی اس حیثیت کو ساری مسلم دنیا نہ سہی کم از کم عرب دنیا ہی تسلیم کرتی ہو،یہ علیحدہ بات کہ اپنی جماعت کے کن ٹٹوں کو جو مرضی قرار دے لو، لیکن بات صرف ، نام ، مقام، کلمہ اور درود پر ڈاکہ ڈالنے یا برابری کرنے تک ہی نہیں رہتی۔

۲۰:۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجلی سے ہی دنیا کو محروم کرنے کی سازشیں شروع ہوتی ہیں، مرزا صاحب فرماتے ہیں ،”مگر تم خوب توجہ کر کے سن لو کہ اب اسم محمد کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں۔ یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہو چکا۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔ اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہو کر میں ہوں“۔ اربعین۴/ ر خ ، ج ۱۷/ ص ۴۴۶۔۴۴۵ ۔ دیکھیں کس چابکدستی کے ساتھ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود بے ضرورت قرار دیا جا رہا ہے ، اور اپنی ضرورت بتائی جا رہی ہے، اور اسکے ساتھ ہی ذہن میں یہ بات بٹھانے کی سازش ہو رہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نعوذ باللہ جلاتی ہے اور برداشت کے قابل نہیں، لیکن میری تعلیم چاند کی ٹھنڈی کرنیں ہیں جو تمہیں سکون بخشیں گی۔اسکا مطلب ہے کہ انکی تعلیم یقیناً علیحدہ ہے ۔اور یہ ایسا منحوس چاند مرزا صاحب کی پیدائش کے ساتھ ہی عالم اسلام کے سر پر چڑھا ہے کہ عالم اسلام کی غلامی ہی نہیں ختم ہو رہی۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

حرامی کون - حصہ دوم

Written by شیخ راحیل احمد
Page 2 کا 6
ارشادات مرزا صاحب :۔

۰۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اب تک تمام اہل اسلام کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ آیت مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ‘ احمد ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے اور احمد کے مصداق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور آپ کے علاوہ اس کا مصداق کوئی نہیں۔ مرزا صاحب سے قبل تمام صحابہ ، مجددین اور آئمہ کرام نے یہی معنی کئے ہیں لیکن مرزا غلام احمد قادیانی کا تمام صحابہ اور بزرگان دین اور مسلمانوں کے بر خلاف دعویٰ ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہیں۔ ازالہ اوہام/ر خ ، ج ۳/ص 463۔ میں لکھتے ہیں کہ یہ میرے حق میں ہے اور میرا نام احمد ہے ۔ کیا یہ ہتک نہیں کہ ایک آیت خدا تعالےٰ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازل کر رہا ہے اسکو اپنے اوپر چسپاں کر لینا، کسی دلیل سے نہیں بلکہ بے تکی تاویلوں سے؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۱۔ دوسری بات کہ مرزا صاحب کا نام غلام ہے احمد نہیں اور غلام چاہے جتنا بھی بڑھ جائے ، جسکا غلام ہے اسکے برابر یا اسکے ٹائٹل کا مصداق نہیں ہو سکتا۔ مرزا غلام اے قادیانی کے بڑے بھائی کا نام غلام قادر ہے ، اسکا بھی کہیں کہ نام قادر ہے اور اسکو بھی آیت اللہ ہر چیز پر قادر ہے کا مصداق مانو؟ ایک شخص کا نام نصراللہ ہے کیا اسکا نام اللہ ہوگا، اسکو بھی کہو کہ یہ اللہ ہے جو مدد لیکر آیا ہے؟

۲۔ اگر میرے قادیانی دوست کہیں کہ جی ایک بات سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا جو آپ نکال رہے ہیں اورمرزا صاحب اپنے کو غلام ہی سمجھتے تھے تو ان اشعار کا کیا مطلب نکالیں گے

منم مسیح زماں منم کلیمِ خدا ۔ منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد

یعنی” میں مسیح زمان ہوں ، میں کلیم خدا ہوں، میں محمد اور احمد ہوں ، مجتبیٰ ہوں“۔تریاق القلوب /ر خ ، ج ۵/ ص ۱۳۴۔ کیا یہ برابری کا دعویٰ نہیں؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۳:۔اور اگر یہ بات بھی کافی نہیں تو اس شعر کے بارے میں کیا کہیں گے؟ انبیاء گر چہ بودہ اند بسے ۔ من بعرفاں نہ کم ترم زَکسے

یعنی انبیاءاگرچہ بہت ہوئے ، لیکن میں بھی کسی سے کم تو نہیں۔نزول المسیح ر خ ، ج ۱۸/ص ۴۷۷ / ۔ اب تک کی اس فقیر نے آپکے سامنے جو مرزا صاحب کے بیان رکھے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نعوذ با للہ اپنے آپ کو کم از کم سرور کائنات ، صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر سمجھتے تھے۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

4۔ کیا میں واقعی صحیح سمجھا ہوں؟ مرزا صاحب کے بیٹے کی شہادت میری اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جو نتیجہ میں نے نکالا ہے وہ صحیح ہے ، لکھتے ہیں ،” مسیح موعود کو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہو گیا کہ ظلی نبی کہلائے پس ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا“۔ کلمۃ الفصل/ص۱۱۳/ از مرزا بشیر احمد ایم اے۔ ان حوالوں سے کم ازکم یہ تو ثابت ہو گیا کہ مرزا صاحب اور انکے متبعین انکو نعوذباللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر سمجھتے ہیں۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۵:۔ لیکن کیا ظل ، اصل کے برابر ہو سکتا ہے؟ کیا سایہ وجود کی حقیقی برابری کر سکتا ہے؟رہی ظِل اور بروز کی بات تو اسکا ٹنٹا بھی مرزا صاحب کے بیٹے ، مرزا بشیرالدین نے صاف کر دیا، وہ لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب اسی طرح کے نبی تھے جس طرح دوسرے انبیاء، اور یہ ظِل، بروز وغیرہ کی بحث صرف لوگوں کو سمجھانے کے لئے تھی۔

۶:۔ لیکن بات صرف برابری کی نہیں بلکہ مرزا صاحب ہندو مذہب کے عقیدہ کے مطابق یقین کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرزا صاحب کی ذات میں جنم لیا ہے، لیکن یہ بھی قدم بہ قدم دماغ میں بٹھاتے ہیں، لکھتے ہیں،” پھر اس کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے ۔ محمد رسول اللہ والذین معہ اشدا ءعلی الکفار رحماءبینہم ۔ اس وحی الہٰی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی“۔ایک غلطی کا ازالہ / ر خ، ج ۱۸/ ص ۲۰۷۔ دیکھیں اپنا جھوٹ کس طرح خدا پر ڈال دیا

۷:۔لیکن بات آگے چلتی ہے ، صرف نام ہی نہیں دیا بلکہ اپنے وجود کو نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود قرار دیا، لکھتے ہیں کہ ، ”بروزی طور پر وہی خاتم الانبیاءہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے“۔ ایک غلطی کا ازالہ / ر خ، ج ۱۸/ ص ۲۱۲۔

۸:۔ مرزا صاحب نے بروز لفظ کے استعمال سے جو دجل کا کھیل کھیلا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔صوفیاءکی اصطلاح میں بروز کے یہ معنی ہیں ناقص درجہ کی روح ،کسی کامل کی روح سے استفاضہ کرے۔ اگر مرزا صاحب کے بھی یہی معنی ہیں تو اس سے نہ صرف مماثلت کا دعویٰ نہیں ہو سکتا بلکہ وجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ بھی نہیں ہو سکتا۔ اور عین عین ہے اور بروز بروز ہے، اگر بروز کو عین مان لیں تو بروز کیسا؟

۹:۔پھرعربی لغت کے لحاظ سے بروز کے معنی ہیں کسی چھپی ہوئی چیز کا ظاہر ہونا/ باہر نکلنا۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روح یا جسم یا دونوں مرزا صاحب ہیں تو یہ ممکن نہیں۔قرآن کریم کی کئی آیات میں بروز کا لفظ استعمال ہوا ہے، سورة ابراہیم، آیت ۴۸ / سورة ابراہیم، آیت ۳۱ / سورة غافر ، آیت ۱۶ / سور البقرة ، آیت۰ ۲۵ / سورة النساء، آیت ۸۱ / سورة آل عمران ، آیت ۱۵۴۔ (بشکریہ ،خوان ارمغان، مصنفہ فضل احمد گورداسپوری،مطبوعہ ۱۹۱۵)۔ ان سب میں اللہ تعالےٰ نے قبروں سے مردوں کا نکلنا، یا گھروں کے اندر سے یا کسی اوٹ سے باہر اور ظاہر ہو کر نکلنے کے کئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اللہ تعالےٰ کے نزدیک بروز اس کو کہتے ہیں کہ جو جسم چھپ گیا ہو یا گھر کے اندر یا کسی اوٹ میں اور وہ ظاہر ہو کر سامنے آ جائے۔ اب اس طرح تو بروز محمدی کے معنی صرف یہی ہو سکتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روضہ پاک سے اُٹھ بیٹھیں ، اور ایسا ماسوائے روز قیامت کے ممکن نہیں۔اگر مرزا کو ہی نعوذبااللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مان لیں تو کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں چھپے ہوئے تھے جو اب ظاہر ہو گئے؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

حرامی کون حصہ اول

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

مرزا غلام اے قادیانی کو مسلمان ہونے کا دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ اپنے آپ کو( صحابہ کرام سے لیکر آج تک بلکہ تا قیامت) رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں سب سے بڑھکر عاشق صادق، قرار دیا۔اور اس سلسلہ میں ایک جگہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ” اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو۔ آپ کا دعویٰ کل جہاں کے لئے اور سخت سے سخت دکھ اور تکالیف آپ کو پہنچے۔جنگیں بھی آپ نے کیں ۔ ایک لاکھ سے زیادہ صحابہ آپکی زندگی میں موجود تھے۔ پھر ان باتوں کے ہوتے ہوئے جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی ایسا کلمہ زبان پر لائےگا۔ جس سے آپکی ہتک ہو وہ حرامی نہیں تو اور کیا ہے ؟ ملفوظات / ج ۵/ ص ۲۸۳۔
ان سطور سے قبل جو عبارت ہے وہ ایک علیحدہ اورتفصیلی موضوع ہے، اس پر اگر خدا تعالےٰ نے توفیق دی تو کسی دوسرے موقع پریہ فقیر درِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی معروضات پیش کریگا۔
یہاں اسوقت موضوع یہ ہے کہ جوایسا کلمہ زبان پر لائے جس سے حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم، رحمت اللعالمین کی شان میں ہتک ہو وہ کون ہے؟ مرزا صاحب نے اپنافیصلہ دے دیا ہے کہ ہتک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کرنیوالا حرامی ہے اور میں اس فیصلہ سے مکمل طور پرمتفق ہوں ، لیکن ایک انتہائی اہم سوال یہ ہے کہ مخالفیں قادیانیت انتہائی بلند آواز میں یہ الزام لگاتے ہیں کہ مرزا غلام اے قادیانی اور انکی اُمت اپنے آپ کو مسلمان کے طور پر پیش کرنے کے باوجود مسلسل توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب ہو رہے ہیں، اس مضمون میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیامرزا صاحب نے تو کوئی ایسی بات نہیں لکھی یا کہی جس سے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا کوئی پہلو نکلتا ہو؟
میرے قادیانی (احمدی) دوست رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ، مرزا صاحب کی بعض بڑی خوبصورت تحریریں پیش کرتے ہیں، لیکن واقفانِ حال مرزا صاحب کی ان تحریروں کو جن میں بظاہر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی گئی ہے، پر ِ کاہ کی بھی اہمیت نہیں دیتے ۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مرزا صاحب کی یہ تحریریں”دام ہمرنگ زمین “ ہیں اور سادہ و معصوم لوگوں کو پھنسانے کے کام آتی ہیں۔ کیونکہ کئی جگہوں پر مرزا صاحب نے ایسی توہین آمیز باتیں، اس پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے بارہ میں کہیں ہیں ، جن سے نہ صرف توہین کا پہلو نکلتا ہے بلکہ اس پاک ہستی ، سرور کائنات، رحمت اللعالمین ، نبیوں کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شدید بغض ظاہر ہوتا ہے، اور ان کی پاک ذات سے کہیں بالواسطہ اور کہیں بلاواسطہ اپنی ذات کی برتری ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
جب میں قادیانی تھا ، یہی کرتا رہا کہ مرزا صاحب کی وہ تحریریں جو میرے قادیانی دوست پیش کرتے ہیں اور بظاہر خوبصورت محسوس ہوتی ہیں مرزا صاحب کے عاشق رسول ہونے کے ثبوت میں پیش کرتا تھا، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ۹۵ فیصد قادیانی دوستوں کو مرزا صاحب کی توہین آمیز تحریروں کا علم ہی نہیں اور جب کوئی شخص جو ان کی جماعت میں سے نہیں، ایسا حوالہ پیش کرتا ہے تو وہ سدھائے ہوئے طوطے کی طرح ایک ہی رٹ لگائے جاتے ہیں ، کہ یہ مولویوں کا جھوٹ ہے، یہ حوالہ پورا نہیں دیا، توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے وغیرہ( اور میں بھی ایسا ہی کرتا رہا اس لئے مجھے علم ہے، اور کبھی خود اصل حوالہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کیونکہ برین واشنگ کی وجہ سے یہ یقین ہوتا تھا کہ قادیانی مربی صحیح کہہ رہے ہیں )۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں نے قادیانی عینک اتار کر مرزا صاحب کی تحریروں کا جائزہ لیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ ، حوالوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا، ان کے ساتھ اپنے تبصرہ کو مکس کر کے پیش کرنا،حوالوں کی ادھوراپیش کرنا، بے بنیاد حوالے جنکا کوئی وجود ہی نہیں پیش کرنا، مرزا غلام اے قادیانی کا بہت بڑا وصف تھا ، جس کی ماضی اور حال میں کوئی مثال نہیں ملتی اور مجھے یقین ہے کہ ابھی کئی صدیاں اس معاملے میں مرزا صاحب کی برتری برقرار رہے گی ۔میرے قادیانی دوستو ،اسکی مثال اس طرح ہے کہ تمہارے سامنے دنیا کا مزیدار ترین کھانا خوبصورت برتنوں میں، خوبصورت انداز میں پیش کیا جائے، اور تمہیں پتہ چلے کہ پیش کرنا والا اس کھانے پر کھانستا ہوا ، اور چھینکیں مارتا ہو ا آیا ہے تو کیا تم وہ کھانا، کھا لو گے؟ اور اگر پتہ چل جائے کہ کھانا پیش کرنے والے نے رفع حاجت کے بعد بغیر صفائی اور ہاتھ دھوئے کھانا ڈالا اور پیش کیا ہے تو کیا تم اس کھانے کو ہاتھ بھی لگاو گے؟ اور اگر تمہیں یہ پتہ چل جائے کہ اس کھانے کی پلیٹ کوکتاچاٹتا رہا ہے اور اس پلیٹ میں کھانا تمہیں پیش کیا ہے یا اس کھانے پر پیشاب کی چھینٹیں پڑی ہیں تو کیا اس کی کھانے کی طرف تم دیکھنا بھی پسند کروگے چاہے کتنی ہی سجاوٹ اور لوازمات سے وہ کھانا تیار ہو ؟ یہی حال مرزا صاحب کی تحریروں کا ہے انکی تحریریں کھانے کے بارے میں اوپر دی گئی مثالوں پر پورا اترتی ہیں۔ اس لئے انکی مثال اسی کھانے جیسی ہے جو میں نے اوپر بیان کی ہے۔ اور میری اس بات کا ثبوت مندرجہ ذیل بیانات مرزا صاحب ہیں۔

دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری - حصہ پنجم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

چوتھی مشہور پیشگوئی مسمات محمدی بیگم ایک بارہ تیرہ سالہ لڑکی سے شادی کی تھی اور اسکے لئے مرزا صاحب نے بڑے دعوے کئے لیکن خدا نے مرزا صاحب کو اس پیشگوئی میں بھی دوسری پیشگوئیوں کی طرح ذلیل کیا اور مرزا صاحب اس سے شادی کی حسرت ہی لئے راہی ملک عدم ہو گئے۔ بقول مرزا صاحب کے اسکے ساتھ انکا نکاح آسمان پر خود خدا نے پڑھا ، لیکن دنیا نے دیکھا کہ وہ زمین پر خدا کی مرضی سے مرزا سلطان[سکنہ پَٹی ضلع قصور] کے بچے جنتی رہی اور مرزا صاحب کی موت کے بھی چالیس سال بعد تک مرزا سلطان کے ساتھ ہنسی خوشی بسر کرتی رہی، باوجودیکہ مرزا صاحب نے الہاماً نکاح کے ڈھائی سال کے اندر مرزا سلطان کے مرنے کی پیشگوئی کرتے رہے بلکہ یہاں تک کہ موضع پَٹی کے بارے میں بھی الہام جڑ دیا کہ ”پَٹی پُٹی گئی“ ۔ آج تک تو موضع پُٹی سلامت ہے حالانکہ اس علاقہ میں ہندوستان اور پاکستان کی جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں ۔ ہاں مستقبل میں ممکن ہے کہ موضع پَٹی کی کوئی سڑک برائے مرمت پُٹی جائے تو الفضل میں اسکی فوٹو لگا کر سرخی لگا دیں کہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود کا الہام کس شان سے پورا ہوا کہ پَٹی پُٹی گئی اور نہ صرف پُٹی گئی بلکہ مرزا سلطان کے آبائی مکان کے سامنے پُٹی گئی اسکے علاوہ بے شمار پیشگوئیاں ہیں جو آج بھی مرزا صاحب کو نبی ماننے والوں کے لئے شرمندگی کا باعث ہیں۔
کھڑاگ کیوں :۔ آدمی کے دل میں خیال آتا ہے کہ مرزا صاحب نے یہ سارا کھڑاگ کیوں پھیلایا؟ اسکا واضح جواب مرزا صاحب کا ایک فقرہ دے دیتا ہے ” مجھے اپنے دستر خوان اور روٹی کی فکر تھی“۔ اور پھر ساری عمر مرزا صاحب نے اسلام کی خدمت کے نام پر جھولی پھیلا کر، اشاعت اسلام کے نام پر اکٹھے کئے ہوئے پیسے سے صرف اپنی رہن شدہ خاندانی جائداد ہی نہیں چھڑائی بلکہ اپنی اولاد کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کر گئے آئندہ کے لئے مذہبی دکانداری کی لیکن انکی اولاد آج بھی چندے کا کشکول اٹھائے پھرتی ہے، کیوں نہ اٹھائیں ، اسی چندے سے ارب پتی بنے ہیں ۔ اور اس کے لئے مرزا صاحب نے اسلام کی خدمت کے نام پر نہ صرف اپنی بے معنی اور تضاد سے بھر پور کتابیں ہی بیچیں اور کتابوں کے نام پر لوگوں کا ہزاروں روپیہ بغیر ڈکار مارے ہضم کرگئے بلکہ، زکوٰة ، صدقات کے علاوہ رنڈیوں کے مال اور سود کو بھی اپنے لئے مباح کر گئے۔
وفات :۔ مرزا صاحب کا الہام تھا کہ خدا نے انکو کہا ہے کہ” انکی عمر اسی (۸۰) برس یا دو چار سال کم یازیادہ ہوگی“ اب اس الہام کو ہی دیکھ لیں کہ بقول مرزا صاحب کے قادر مطلق اورعالم الغیب خدا ان کو عمر کی خبر دے رہا ہے مگر بیچارے کو خود معلوم نہیں کہ وہ مرزا صاحب کو 76 / 77 / 78 /79 / 80 /81 /82 /83 / 84 سال میں سے کتنی عمر دیگا، اس لئے وہ نو (۹) عدد چانس اپنے پاس رکھ رہا ہے تاکہ اگر ایک دو بار بھول جائے تو اگلا چانس استعمال کر لے۔
لیکن مرزا صاحب کا جھوٹا الہام خدا کو پسند نہیں آیا اور اس نے انکو 68/69 سال کی عمر میں ہی وفات دے دی۔ مرزا صاحب بقول انکے 1839 ء یا 1840ءمیں پیدا ہوئے اور ۱۹۰۰ میں ایک عدالت میں حلفی بیان بھی دیا کہ انکی عمرساٹھ ( ۶۰) سال ہے ۔ اور 26 مئی ۱۹۰۸ءکو محمدی بیگم سے شادی کی حسرتوں کا جنازہ بھی ساتھ لیکر راہی ملک عدم ہوئے۔لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں، بلکہ مرزا صاحب نے مولوی ثناءاللہ امرتسریؒ کو اپنی وفات سے چودہ (۱۴)مہینے پہلے خط لکھا جس میں لکھا کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہیضہ یا طاعون یا کسی خبیث مرض سے مر جائےگا، اور مرزا صاحب مولوی ثناءاللہ امرتسریؒ کی زندگی میں ہیضہ سے فوت ہوئے اور انکے ہونٹوں سے جو آخری صاف الفاظ ادا ہوئے وہ یہ تھے کہ ” میر صاحب مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے“۔ اور مولوی ثناءاللہ امرتسری نے چالیس سال کے بعد1948 ءمیں بمقام سرگودھا، نارمل وفات پائی اور اپنی وفات سے پہلے کئی مباحثوں او ر مناظروں میں قادیانیوں کو سر پر پاوں رکھ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ بات وفات کی صرف یہاں ہی ختم نہیں ہوتی، بلکہ ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی ، جو مرزا صاحب کے صحابی تھے لیکن مرزا صاحب کی حرکات دیکھنے کے بعدانکو چھوڑ گئے انہوں نے پیشگوئی کی کہ مرزا جولائی ۱۹۰۷ءسے چودہ مہینے کے اندر مر جائیگا۔
اسکے جواب میں مرزا صاحب نے کہا کہ ، ”خدا نے اردو میں فرمایا کہ میں تیری عمر کو بھی بڑھا دوں گا۔ یعنی دشمن جو کہتا ہے کہ صرف جولائی ۱۹۰۷ءسے چودہ مہینے تک تیری عمرکے دن رہ گئے ہیں یا ایسا ہی جو دوسرے دشمن پیشگوئی کرتے ہیں ان سب کو میں جھوٹا کرونگا اور تیری عمر کو بڑھا دونگا تا معلوم ہو کہ میں خدا ہوں اور ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے“ اشتہار ۵ نومبر ۱۹۰۷۔
اب دیکھیں کہ اس اشتہار کے شائع کرنے کے بعد سے آٹھویں مہینے میں مرزا صاحب کو خدا نے جھوٹا کر کے موت دے دی کہ انہوں نے اللہ کے حوالے سے اپنی عمر کی تحدی کی تھی۔ بات صرف یہیں ہی ختم نہیں ہوتی، مرزا صاحب نے کہا کہ خدا نے کہا ہے کہ تو ایک دور کی نسل دیکھےگا، اب سوائے ایک پوتے کے (مرزا عزیز) وہ بھی اس بیٹے کی اولادجسکو مرزا صاحب نے دشمن اسلام، دشمن دین، اپنے اوپر تلوار چلانے والا، دیوث ( مرزا سلطان احمد کو) قرار دیکر عاق کر دیا تھا اور انکی زندگی میں وہ عاق ہی رہا ، کے علاوہ مرزا صاحب کو پوتا اور دوہتا بھی دیکھنا خدا نے نصیب نہ کیا ، باوجودیکہ اپنے لڑکوں کی ۱۲۔۔۱۳سال کی عمر میں اور لڑکی کا ۹۔۔۱۰ کی عمر میں نکاح کر دیا تھا۔ اس نبوت کے جھوٹے دعوے دار نے خدا پر جھوٹ باندھا تھا کہ اس نے وعدہ کیا ہے دور کی نسل دکھانے کا تو خدا نے دور تو کیا نزدیک کی نسل بھی نہ دکھائی۔کیا اللہ تعالےٰ اسی طرح اپنے نبیوں کو جھوٹا کرتا ہے ؟بات ابھی اور بھی آگے چلتی ہے،دہلی سے شائع ہونے والے اخبار ”پیسہ“ کی ۱۸ ستمبر ۱۹۰۷ کی اشاعت میں ایک صاحب کی پیشگوئی شائع ہوئی” پیشگوئی متعلقہ طاعون بابت سال ۱۹۰۷ ء و ۱۹۰۸ ، پنجاب میں اب کے طاعون کا پہلا جیسا زور نہیں ہوگا ۔البتہ ممالک مغربی و شمالی میں بہت زیادہ زور ہو گا ۔ دلی میں بھی گذشتہ سال سے زیادہ ہوگا۔ پنجاب کے ایک بہت بڑے مذہبی لیڈر جن کو دعویٰ ہے کہ انکو طاعون نہیں ہو سکتا، طاعون سے انتقال کریں گے“۔

جب مرزا صاحب کو یہ پڑھکر سنایا گیا تو مرزا صاحب نے کہا، ” یہ ایک پیشگوئی ہے جو اس اخبار میں درج ہے۔ اب خود بخود سچائی ظاہر ہو جائیگی“۔اور مرزا صاحب نے اپنے ایک مخالف کے بارے میں کہا کہ وہ طاعون میں مبتلا ہوا اور چند گھنٹوں میں مر گیا، مرزا صاحب بھی شام کو سیر کر کے آئے اوررات کو بیمار ہوئے اور چند گھنٹوں میں ہی مر گئے، ممکن ہے کہ طاعون سے ہی مرے ہوں اور اسوقت اگر یہ خبر باہر نکلتی تو مرزا صاحب کاقائم کردہ مذہب ایک رات میں ہی ختم ہو جاتا، اس لئے ممکن ہے کہ خبر دبا دی گئی ہو۔ لیکن ایک بات ہے کہ مرزا صاحب اس پیشگوئی کے مطابق بھی ۱۹۰۸ میں ہی مرے۔یعنی مرزا صاحب خود تسلیم کر گئے کہ اگر وہ ان پیشگوئیوں کے نتیجے میں مرے تو سچائی ظاہر ہو جائیگی یعنی انکی جھوٹی نبوت کا پردہ چاک ہو جائیگا۔ اور سچائی ظاہر ہوئی اور ڈنکے کی چوٹ ظاہر ہوئی اور مرزا جی کو تا قیامت جھوٹا قرار دے گئی۔ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن یہ بھی کافی ہے ظاہر کرنے کے لئے ہ ” دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری “۔