القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Thursday, August 27, 2009

تیسرا کھلا خط بنام مرزا مسرور احمد . آخری حصہ

ثبوت نمبر 4۔اب مرزا صاحب ایک حدیث شریف کو اپنے دعویٰ مسیح موعود کے ثبوت میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس پیشگوئی ( محمدی بیگم کیساتھ شادی کی ۔ ناقل) کی تصدیق کے لئے جناب رسول اللہ نے بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ یتزوج و یو لد لہ۔ یعنی وہ مسیح موعود بیوی کریگا نیز وہ صاحب اولاد ہو گا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں کیونکہ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے، اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا، اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی موجود ہے گویا اس جگہ رسول اللہ ان سیاہ دل منکروں کو انکے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہونگی۔“(ضمیمہ انجام آتھم، رخ ج۱۱/صفحہ۳۳۷،حاشیہ )
مرزا صاحب کی یہ تحریر 1896 کی ہے، اسوقت تک مرزا صاحب کی دو شادیاں ہو چکی تھیں اور ان میں سے اولاد بھی تھی، بلکہ پہلی بیوی(ماموں زاد حرمت بی بی عرف پھجے دی ماں) کو محمدی بیگم کے ساتھ شادی نہ کروانےکے جرم میں طلاق بھی دے چکے تھے اور اسی جرم میںسب سے بڑے بیٹے مرزا سلطان کو عاق بھی کرچکے تھے اور اپنی دوسری بہو عزت بی بی زوجہ فضل احمد کو بھی طلاق دلوا چکے تھے ۔ اسکے بعد تا حیات مرزا صاحب کی تیسری شادی محمدی بیگم یا کسی اور عورت سے نہیں ہوئی اور نہ ہی (شادی نہ ہونیکی وجہ سے) وہ خاص اولاد ہوئی، اس طرح مرزا صاحب نے خود ثابت کر دیا کہ وہ رسول کریم کی پیشگوئی پر بھی پورے نہیں اترے لہٰذامرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود نہیں ہیں۔
ثبوت نمبر۵: ۔لیکن بات یہاں ہی نہیں رکتی ، خاکسار آپ کی خدمت میں دو حوالے پیش کرتا ہے جس سے مرزا صاحب کی دروغ بیانی ظاہر و باہر ہو جائیگی۔ جب مرزا صاحب نے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا عقیدہ سر سید احمد خان سے اپنایا تو علماءاور دوسرے مسلمانوں نے اعتراض کیا کہ براہین احمدیہ میں جو کہ مرزا صاحب نے الہامی رہنمائی کے تحت لکھی تھی اسمیں تو حیات عیسیٰ علیہ اسلام کا عقیدہ لکھاہے،مرزا صاحب جواب دیتے ہیں کہ :
میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی کا عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھدیا۔ میں خود تعجب کرتا ہوں کہ میں نے باوجود کھلی کھلی وحی کے جو براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود بناتی تھی ، کیونکر اس کتاب میں یہ رسمی عقیدہ لکھ دیا۔پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا، خدا نے مجھے بڑی شد و مد سے براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود قرار دیاہے مگر میں رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے۔“ (اعجاز احمدی،رخ ج۱۹/صفحہ ۱۱۳)
پہلے لیتے ہیں رسمی عقیدہ والے جھوٹ کو، مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کی فروخت کا جو اشتہار دیا تھا اسکی ان سطور کوجو میں ابھی پیش کرونگا ، رسمی عقیدہ نہیں تھا بلکہ انتہائی تحقیق کے بعد براہین احمدیہ لکھی گئی، مرزا صاحب فرماتے ہیں
اس عاجز نے ایک کتاب متضمن اثبات حقانیت قرآن و صداقت دین اسلام ایسی تالیف کی ہے جس کے مطالعہ کے بعد طالب حق سے بجز قبولیت اسلام اور کچھ نہ بن پڑے۔“( اشتہار اپریل۱۸۷۹ ، مجموعہ اشتہارات ج ۱/ص۱۱)
کتا ب براہین احمدیہ جسکو خدا تعالےٰ کی طرف سے مولف نے ملہم اور مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا ہے۔اول تین سو مضبوط اور قوی دلائل عقلیہ سے جن کی شان و شوکت و قدر و منزلت اس سے ظاہر ہے کہ اگر کوئی مخالف اسلام ان دلائل کو توڑ دے تو اس کو دس ہزار روپے دینے کا اشتہار دیا ہوا ہے۔ اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں اگر اس اشتہار کے بعدبھی کوئی شخص سچا طالب بن کر اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے۔“ بحوالہ اشتہار نمبر۱۱، مجموعہ اشتہارات جلد۱، صفحہ ۲۳ تا ۲۵
اب آپ اندازہ لگائیں کہ کیا اس کتاب کا اشتہار کسی رسمی عقیدہ کے سرسری عقیدے کا ذکر کر رہا ہے یا الہامی رہنمائی سے انتہائی دقیق تحقیق کا دعویٰ ہے۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ مجدد نرے استخواں فروش نہیں ہوتے، بالکل صحیح کہا لیکن یہ تضاد بیانی اور کتاب بیچنے کےلئے جھوٹے دعوے ثابت کر رہے ہیں کہ مرزا صاحب نہ مجدد تھے اور نہ ہی الہام ہوتے تھے صرف ایک دروغ گو کتاب فروش تھے اور ایمان فروش تھے۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی ،اس ثبوت کے شروع میں خاکسار نے جو حوالہ پیش کیا ہے اسکے اس فقرے کو سامنے رکھیں” پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا، خدا نے مجھے بڑی شد و مد سے براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود قرار دیاہے مگر میں رسمی عقیدہ پر جما رہا۔ جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے“۔ اور اب اس حوالے کو غور سے پڑھیں:
واللہ قد کنت اعلم من ایّام مدیدة اننی جُعلت المسیح ابن مریم و انی نازل فیمنز لہ و لکن اخفیتہ نظراً اِلیٰ تاویلہ۔ بل ما بدلت عقیدتی و کنت علیھا من ا لمستمسکین و توقفُ فی الاظہار عشر سنین۔ترجمہ: ”اللہ کی قسم میں بہت عرصے سے جانتا تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم بنایاگیاہے اور میں ان کی جگہ نازل ہوا ہوں لیکن میں تاویل کر کے چھپاتا رہا۔ بلکہ میں نے اپنا عقیدہ نہیں بدلا اور اسی پر تمسک کرتا رہا اور اس دعویٰ کے اظہار میں میں نے دس برس تک توقف کیا۔“ (آئینہ کمالات اسلام، صفحہ۵۵۱، روحانی خزائن جلد۵)
اب آپ بتائیں کہ کیا یہ تضاد ایسے شخص کے قلم میں ہو سکتا ہے جسکا دعویٰ یہ ہو کہ وہ مجدد ہے ،جسکو بتمام کمال مصفیٰ کیا گیا ہے اور نائب رسول اللہ ہو۔ کبھی نہیں، آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایسا تضاد ایک ایمان فروش، ایک جھوٹے مدعی نبوت کی تحریروں میں ہی ہو سکتا ہے۔اور جھوٹی ، متضاد باتیں لکھنے والا مسیح موعود نہیں ہو سکتا۔
ثبوت نمبر6: ۔مرزا صاحب صحیح بخاری کی ایک حدیث کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مجھے قسم ہے اس پروردگار کی جسکے ہاتھ میں محمد( ) کی جان ہے ، تم میں حضرت عیسیٰ ابن مریم حاکم عادل کی حیثیت سے نازل ہوں گے“(ازالہ اوہام، رخ ج ۳/ص ۱۹۸)
اس حوالے کو ذہن میں رکھیں (زور لفظ قسم پر ہے) اور اب مرزا صاحب کی اس دلیل یا اصول کو پڑھیں، لکھتے ہیں:
قسم اس بات کی دلیل ہے کہ خبر اپنے ظاہر پر محمول ہے۔ اس میں نہ کوئی تاویل ہے اور نہ استثناء۔ورنہ قسم سے بیان کرنےکا کیا فائدہ؟“ (حمامۃ البشریٰ،،ر خ ج ۷/ص ۱۹۲)
اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ خاتم الانبیاء،رحمت اللعالمین، سرور کائنات، رسول اللہ ایک بات کو قسم کھا کر بیان کر رہے ہیں اور مرزا صاحب ہیں کہ کسی بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ، اپنے ہی تسلیم شدہ معیار کی پیروی نہ کرتے ہوئے کس ظالمانہ طریق پر ، رسول پاک کی قسم کھائی ہوئی بات کی بے بنیاد تاویل کر کے اپنے آپ کو عیسیٰ ابن مریم کی جگہ بٹھا رہے ہیں۔جو شخص رسول کریم کی قسم کھائی ہوئی بات کی تاویلیں کرنا شروع کر دے وہ مسلمانوں کےلئے کسی طرح بھی مسیح موعود نہیں ہو سکتا، ہاں بھٹکے ہووں کےلئے ہو سکتا ہے۔
خاکسار نے انتہائی واضح دلائل کے ساتھ مرزا صاحب کی تحریروں کا تضاد واضح کر دیا ہے اور مرزا صاحب ہی کا قول ہے کہ
اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔
اب خود دیکھ لو کہ اتنے متناقض کلام والے شخص کو مان کر (اسی شخص کے بقول)ایک مخبوط الحواس شخص کو نبی اور مسیح موعود مان رہے ہو، مرزا صاحب کے کلام میں جھوٹ اور تضاد کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں، اور خاکسار نے اوپر کی سطور میں مرزا صاحب کا جھوٹ بھی ثابت کر دیا ہے مرزا صاحب کے اپنے کلام میں، اور جھوٹ کے بارے میں مرزا صاحب ارشاد فرماتے ہیں: ”جھوٹ کے مردار کو کسی طرح نہ چھوڑنا، یہ کتوں کا طریق ہے نہ انسان کا۔“ (انجام آتھم،،ر خ ج۱/ص43)
یہ فیصلہ آپ خدا کو حاضر ناظر جان کر خود کر لو کہ مرزا صاحب نے جھوٹ بولا یا نہیں؟ جھوٹ کا مردار سینے سے لگائے رکھا ہے یا نہیں ، یہ فیصلہ کرنا آپکا کام ہے۔
مرزا صاحب نے دجال کے لفظ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے
دجال کے لئے ضروری ہے کہ کسی نبی بر حق کا تابع ہو کر پھر سچ کے ساتھ باطل کو ملا دے۔(مجموعہ اشتہارات، ج ۲/صفحہ۱۳۱)۔ اوردوسری جگہ لکھتے ہیں: ” دجال کے معنی بجز اسکے اور کچھ نہیں کہ جو شخص دھوکہ دینے والا ہو اور خدا تعالےٰ کے کلام میں تحریف کرنے والا ہو، اسکو دجال کہتے ہیں۔“ (تتمہ حقیقت الوحی، ر خ ج ۲۲/ص 456)
مرزا صاحب کی جو تحریریں خاکسار نے آپکی خدمت میں بطور نمونہ پیش کی ہیں وہ یہی ثابت کر رہی ہیں کہ متناقض اور موقع پرستانہ ، دھوکہ دینے والا کلام ہے اور ایسی سینکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ پس ہوش کریں کہ کن کے ہاتھوں میں اپنا ایمان، مال و دولت، وقت، عزت و آبرو، اولاد، خود کو گروی رکھا ہوا ہے، اور وہ بھی کسی چیز کے بدلے میں نہیں۔ دنیا تو تمہاری انہوں نے چھین لی آخرت کے نام پر اور اتنے واضح جھوٹوں کے بعد، پھر بھی آنکھیں نہیں کھولو گے تو آخرت بھی تمہاری نہیں رہے گی۔یہ مذہب تمہارے اور خدا و رسول کے درمیان ایک تاریک پردے کی طرح حائل ہو گیا ہے ، اس پردے کو پرے ہٹاوگے تو نور خدا کا جلوہ دیکھ سکو گے۔ مجھے آپ لوگوں سے ہمدردی ہے کیونکہ میری زندگی کے ۵۵ سال آپ لوگوں کیساتھ گزرے ہیں۔ اس لئے میری دلی خواہش ہے کہ اس دھوکہ سے باہر نکل آئیں اور اسی خواہش کے تحت یہ چند سطور لکھی گئی ہیں ۔ اس دعا کے ساتھ اپنی عرض کو ختم کرتا ہوں کہ میرا اور آپکا بھی خاتمہ محمد کی اصلی غلامی میں ہو نہ کہ کسی خود ساختہ نبی کی امت میں ۔آمین ۔
خاکسار
مورخہ 24 اپریل ۲۰۰۵ ء شیخ راحیل احمد ( سابق احمدی) از جرمنی

تیسرا کھلا خط بنام مرزا مسرور احمد . حصہ دوئم

یہاں ہم مسیح موعود کا دعویٰ لیتے ہیں، مرزا صاحب اس مسیح موعود کا معیار بیان کرتے ہوئے اپنی صداقت کے ثبوت میں فرماتے ہیں:۔

ثبوت نمبر۱: ۔مرزا صاحب (اپنے) بطور ملہم و مجدداور خلیفۃ الرسول لکھتے ہیں:

یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدا تعالےٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور سڑکوں کو خس و خاشاک سے صاف کر دیں گے اور کج اور ناراست کا نام و نشان نہ رہے گا اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست و نابود کر دیگا۔“ براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد۱/صفحہ601

اب آیت کی اس الہامی تشریح سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں

(۱) حضرت مسیح ابن مریم نازل ہوں گے لیکن یہاں غلام ابن چراغ بی بی دعویٰ کر رہے ہیں۔

(۲) دنیا ان کا جلال دیکھے گی یعنی حکومت !لیکن کیا دنیا نے مرزا غلام احمد کا جلال دیکھا؟ دنیا کو چھوڑو کیا ہندوستان نے انکا جلال دیکھا؟ اسکو بھی چھوڑو کیا انکے صوبہ پنجاب نے بھی انکا جلال دیکھا؟ یا انکے ضلع نے، یا انکی تحصیل نے حتیٰ کہ انکی اپنی ملکیت قادیان نے ہی جلال دیکھا ہو تو بتاو؟بلکہ دنیا نے تویہاں تک دیکھا کہ مرزا غلام احمدقادیانی ،غلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نو آبادیاتی طاقت کےلئے اپنی خدمات اور اپنے خاندان کی خدمات کا تذکرہ کر کے ملکہ وکٹوریہ کے ایک کلمہ شکریہ سے ممنون ہونا چاہتا ہے( دیکھو ستارہ قیصریہ)۔ کیا یہی ایک نبی کا جلال ہوتا ہے؟ یا جلال کے معنی لغت میں نئے لکھے گئے ہیں؟

(۳) حضرت مسیح ابن مریم تمام راہوں کو صاف کر دیں گے لیکن مرزا صاحب سوائے اپنی اولاد کےلئے مال اکٹھا کرنے کی راہیں صاف کر نےکے اور کچھ نہیں کر کے گئے، اور ہاں ایک صفائی جو مرزا صاحب نے کی کہ جن دنوں طاعون کا زور تھا اپنے گھر کی نالیاں صاف کر کے اپنے ہاتھوں سے نالیوں میں فینائل ڈالا کرتے تھے (دیکھو سیرت المہدی، مصنفہ مرزا بشیر احمد،ایم اے،پسر مرزا صاحب) ۔

(۴) کج اور نا راستی کا نام و نشان نہیں رہےگااور مرزا صاحب اور انکے بعد کے دور میں کج اور ناراستی نے دنیا میں اپنے پنجے اور زیادہ مضبوطی سے گاڑ لئے ہیں ، باقی دنیا کی بات چھوڑو ، اپنی جماعت کو ہی دیکھ لو، بلکہ جماعت کے عام ممبروں کو چھوڑو، انکے عہدیداروں کو ہی صرف دیکھ لو، وہ کن راہوں پر ہیں؟ اگر یہی کج اور ناراستی دور کرنا کہلاتا ہے تو ایسا سمجھنے والے کو اسکا ایمان مبارک ہو؟

(۵) گمراہی کا تخم نیست و نابود کر دیگااب ذرا دنیا کو چھوڑو اپنی جماعت کو ہی دیکھ لو، دنیا تو بہت دور کی بات ہے تمہارے بہت سے عہدے دار بھی عبادت سے بھاگتے ہیں اور بچوں کی ہی نہیں بڑوں کی بھی حاضریاں لگتی ہیں آپکی عبادت گاہوں میں، اور مرکز کو جھوٹی رپورٹیں بھجوائی جاتی ہیں،تمہارے خلفاءپر موکد بہ عذاب قسمیں کھا کر لوگ کیا کیا الزام نہیں لگا رہے؟ اور انکے احترام کا یہ حال ہے کہ ایک مربی کا خلیفہ کے کمرے میں بلاوا آتا ہے تو دوسرا مربی پوچھتا ہے کہ کیا تیل کی شیشی جیب میں ہے؟آپکے سامنے ثابت ہورہا ہے کہ مرزا صاحب اپنی ہی بیان کی ہوئی تصریح کے مطابق مسیح موعود نہیں ہیں۔چونکہ مرزا صاحب آیت کی اپنی الہامی تشریح کے مطابق نہ تو جلال دکھا سکے ، نہ کج اور ناراستی دور کر سکے اور کفر و گمراہی کے اندھیرے انکے دعوےٰ کے بعد اور گہرے ہو چکے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیش کئے ہوئے معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہے اور نبی صرف کامیاب ہوتا ہے اور خدا تعالے نبی کوٰ کبھی ناکام نہیں ہونے دیتا،اس لئے مرزا صاحب اپنے دئے ہوئے معیار کے مطابق بھی دعوے میں جھوٹے ہیں ۔

ثبوت نمبر۲: ۔ جب مرزا صاحب نے مسلمانوں کے عقائد سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے ملہم اور مجدد ہونےکا پروپیگنڈہ خوب کر لیا تواب آہستہ آہستہ اپنے قدم آگے بڑھانے شروع کئے اور اپنے آپ کو مثیل عیسیٰ علیہ اسلام قرار دے لیا، اور یہ دروازہ بظاہر صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی کھول رہے ہیں۔یہ علیحدہ بات ہے کہ خود داخل ہونےکے بعد دوسروں کیلئے ہمیشہ کےلئے دروازہ بند کر دیتے ہیں۔زیرک اور داناعلمائے وقت نے جب دیکھا کہ مرزا صاحب ، حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی جگہ خود مسیح موعود اور مسیح ابن مریم بننے کی تیاری میں ہیں( کیونکہ مرزا صاحب سے پہلے بھی کئی جھوٹے مدعیان نبوت نے ایسے ہی طریقوں سے اپنے قدم نبوت کی طرف بڑھائے تھے) تومخالفت میں آوازیں اٹھنے لگیں، مرزا صاحب نے کچھ وقت حاصل کرنے کے لئے فوراً پینترا بدلا ، اور اعلان شائع کر دیا:

علمائے ہند کی خدمت میں نیاز نامہ“۔اے برادران دین و علمائے شرع متین! آپ صاحبان میری ان معروضات کو متوجہ ہو کر سنیں کہ اس عاجز نے جو مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں، یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں جو آج ہی میرے منہ سے سنا گیا ہو بلکہ یہ وہی پرانا الہام ہے جو میں نے خدائے تعالےٰ سے پا کر براہین احمدیہ کے کئی مقامات پر درج کر دیا تھا ، جس کے شائع کرنے پر سات سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا ہو گا، میں نے یہ دعویٰ ہر گز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں جو شخص میرے پر یہ الزام لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے۔“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳/صفحہ۱۹۲)

جب میں نے یہ پڑھا تو پہلی بار میرے دل میں ایک واضح شک پیدا ہوا کہ مرزا صاحب کی جھولی میں ہیرے ہی نہیں بلکہ پتھر بھی ہیں۔ میرے لئے یہ ایسا حیران کن لمحہ تھا کہ ٹائٹل پر مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی موعود لکھا ہے او ر کتاب کے اندر ماننے والے تو بعد کی بات ، صرف خیال کر نیوالے ہی کم فہم ہیں نیز مفتری و کذاب ہیں، اور میرے کانوں میں (اور آپکے کانوں میں بھی) پیدائش سے ہی یہ ڈالا جا رہا ہے کہ مرزا صاحب مسیح موعود اور مسیح ابن مریم ہی ہیں۔ خیر مرزا صاحب کا اپنا یہ دعویٰ ہی انکے مسیح موعود ہونے کو باطل کر رہا ہے ، مرزا صاحب تسلیم کر رہے ہیں کہ انکو مسیح موعود اور مسیح ابن مریم سمجھنے والا مفتری اور کذاب ہے، لہٰذا مرزا صاحب مسیح موعود نہیں ہیں ۔

ثبوت نمبر۳ : ۔ مرزا صاحب نے اپنی دانست میں ہر قدم آہستہ آہستہ اور بڑا سوچ کربڑھایا، لیکن یہی قدم انکے خلاف ثبوت بھی بنتے گئے۔ مرزا صاحب ایک جگہ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے اور اسکو اپنے حق میں بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے اس شعر ” تا چہل سال اے برادر من ۔ دور آں شہسوار مے بینم“ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ” یعنی اس روز سے جو وہ امام ملہم ہو کر اپنے تئیں ظاہر کریگا،چالیس برس تک زندگی کریگا۔ اب واضح رہے کہ یہ عاجز اپنی عمر کے چالیسویں برس میں دعوت حق کے لئے بالہام خاص مامور کیا گیااور بشارت دی گئی کہ اسی برس تک یا اس کے قریب تیری عمر ہے، سو اس الہام سے چالیس برس تک دعوت ثابت ہوتی ہے، جن میں سے دس برس کامل گزر بھی گئے۔“ (نشان آسمانی،روحانی خزائن جلد 4/صفحہ 473)

یہ رسالہ۱۸۹۲ میں لکھا گیا ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب ۱۸۹۲ میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ چالیس سال کی عمر میں مرزا صاحب ایک خاص الہام کے ذریعہ مامور ہوئے اور یہ رسالہ لکھنے تک پورے دس برس بطور مامور کے گزر چکے ہیں اور تیس سال ابھی باقی ہیں ، یعنی انکی زندگی کا سلسلہ مزید ، کم و بیش ۱۹۲۲ تک مزید چلنا چاہئے تھا، لیکن ہوتا کیا ہے کہ مرزا صاحب بجائے مزید تیس برس کی عمر پانے کے سولہ سال بھی مزید پورے نہیں کرتے اور مئی ۱۹۰۸ میں فوت ہو جاتے ہیں اور جس پیشگوئی کا اپنے آپ کو مصداق بنا کر اپنی صداقت کے لئے خودپیش کرتے ہیں، وہ پیشگوئی بھی انکی ذات پر پوری نہیں ہوئی اور انکا اسی برس والا الہام بھی پورا نہ ہوا۔ اس لئے پہلی بات تو یہ کہ مرزا صاحب کا اپنی عمر کا الہام جھوٹا ہوا ،دوسرے پیشگوئی کا مصداق بننے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا ۔ جسکا الہام جھوٹا ہو اور جو پیشگوئی اپنی صداقت کے لئے پیش کرتا ہے اور اسکا اہل ثابت نہیں ہوتا ، وہ مسیح موعود نہیں ہو سکتا۔پس مرزا صاحب مسیح موعود نہیں۔

تیسرا کھلا خط بنام مرزا مسرور احمد . حصہ اول

تیسرا کھُلا خط

منجانب شیخ راحیل احمد جرمنی | بنام جناب مرزا مسرور احمد صاحب

سابق احمدی، سکنہ ربوہ، (حال مقیم) جرمنی | و اجباب جماعت احمد یہ

محترم خلیفہ صاحب و بزرگو و دوستو سلام علیٰ من اتبع الھدیٰ

آپ میں سے کئی مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں اور بہت سے اس خاکسار کوغائبانہ طور پر جانتے ہیں، اسی طرح کافی دوستوں نے میرے پہلے دونوں کھلے خطوط کا مطالعہ بھی کیا ہوگا، جن میں خاکسار نے مرزا صاحب کے دعویٰ مسیحیت اور دعویٰ نبوت پر انتہائی واضح تضاد بیانیاں پیش کی تھیں۔ اب تیسری عرضداشت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کے دعویٰ مسیح موعود اور مہدی موعود کے بارے میں پیش خدمت ہے، گر قبول افتد زہے عزو شرف۔

خاکسار ایک احمدی گھرانے میں پیدا ہوا، ربوہ میں پلا بڑھا، اور جماعت کے مفاد میں ایک لمبا عرصہ مختلف عہدوں اور حیثیتوں میں کام کیا۔ ایک مسئلہ پرگفتگو کی وجہ سے میری توجہ ایک مربی صاحب نے اپنے دلائل میں لا جواب ہونے پر (نادانستہ طور پر) مرزا صاحب کی کتب کے مطالعہ کی طرف مبذول کرائی۔ خاکسار نے ایک کتاب اٹھائی اور وہ جہاں سے کھلی، وہاں آج تک جو جماعت نے سکھایا تھا اسکے خلاف لکھا ہو ا تھا۔ ا س لمحہ میں نے فیصلہ کیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابیں غیر جانبدار ہو کر پڑھوں اور حقائق کو دیکھوں، اورکئی برس کے مطالعہ کے بعدمیں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مرزا صاحب کے تمام دعوے بے بنیاد ہیں ، دھوکے کی ٹٹی ہیں۔ مرزا صاحب کی جھولی میں کوئی ہیرا تو کیا صاف پتھر بھی نہیں ہیں اور اگر ہے تو صرف اور صرف جھوٹ ہے، اور یہ سب کھڑاگ مرزا صاحب نے اپنی روٹی کے لئے پھیلا یا تھا ۔مرزا صاحب اپنی کسی بات میں سچے نہیں تھے اور اپنے ان بے بنیاد، خود ساختہ دعووں کے ذریعہ، خود اپنی اور اپنی اولاد کے لئے اس دنیا کا کافی سامان کر گئے، حالانکہ جب انہوں نے دعویٰ کیا تھا تو انکی جائداد پر اصل مالیت سے زیادہ قرضہ تھا، لیکن لاکھوں انسانوں کو دوسرے جھوٹے مدعیان نبوت کی طرح نہ صرف دنیا کے مال سے محروم کیا بلکہ آخرت میں بھی جہنم کی آگ کا ایندھن بننے کےلئے چھوڑ گئے۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے پہلا دعویٰ ملہم ہونے کا کیا اور اپنے ان الہاموں کو بنیاد بنا کر مجدد ہونے کا دعویٰ کیا، اور مجدد کے بارے میں انکا دعویٰ یہ ہے

جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے بلکہ وہ واقعی طور پر نائب رسول اللہ اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں، خدا تعالیٰ انہیں تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے الہام کی تجلی انکے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کےوقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور انکی گفتار و کردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ کلی مصفا کئے گئے اورتمام و کمال کھینچے گئے“۔(فتح اسلام ،ر خ ج۳/ ص۷،حاشیہ)

مرزا صاحب کی تمام تحریریں جو ۱۸۸۰ اور اسکے بعد لکھی گئی ہیں، مجدد ہونے اور کلی مصفا ہونے کے دعویٰ کے بعد لکھی گئی ہیں او ر انہی میں مرزا صاحب کے اسکے بعد بیشمار دعوے موجود ہیں۔مرزا صاحب اپنے دعووں کی بنیاد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اوروہ وحی ہے جو میرے پر نازل ہوئی۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔“(اعجاز احمدی،ر خ ج۹/ص140)

یہ دوسری بات ہے کہ جس مسیح اور مہدی ہونے کا مرزا صاحب دعویٰ کر رہے ہیں اسکی خبراحادیث میں ہی ہے، اور جو نشانیاں احادیث شریفہ میں دی گئی ہیں ان میں سے ایک بھی مرزا صاحب پرفٹ نہیں بیٹھتی اسی لئے ردی کی طرح پھینکی جا رہی ہیں، اور پھر اگر کوئی حدیث قرآن کے مطابق بھی ہے لیکن مرزا صاحب کی(نام نہاد) وحی سے معارض ہے وہ بھی ردی ہو گئی یعنی کہ مرزا صاحب کی وحی نعوذ باللہ قرآن مجید سے بھی بڑھ گئی۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ جو مواد مرزا صاحب نے اپنے دعووں کی بنیاد کے طور پر پیش کیا ہے وہ بقول انکے صحیح اور الہامی تائید کے ساتھ پیش کیا ہے، اس لئے ہم صرف مرزا صاحب نے جو تائیدی مواد اپنے دعویٰ کے متعلق پیش کیا ہے اسکے مطابق جائزہ لیں گے کہ آیا مرزا صاحب اپنے بیان کئے ہوئے معیار کے مطابق بھی اپنے دعویٰ جات پر پورے اُترتے ہیں یا نہیں؟مرزا صاحب نے ویسے تو بہت سی باتیں کہیں ہیں لیکن ہم آج نمونے کے طور پر صرف چند ہی باتیں پیش کریں گے کہ یہ خط زیادہ طوالت کی اجازت نہیں دیتا۔

دوسرا کھلا خط بنام مرزا مسرور احمد . آخری حصہ

افسوس اس سے آگے منزلیں ناپید ہو گئیں ورنہ تفنن طبع کواور بھی کچھ ملتا۔ جب اب آپ دیکھیں اور غور کریں کہ ایک شخص جو مجدد، ملہم اور معمور ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے قسم کھاتا ہے اور مدعی نبوت پر لعنت بھیجتا ہے، شیطانی الہامات کی زد میں آکر نہ صرف نبوت بلکہ خدائی کا دعویٰ کرتے ہوئے نہ صرف اپنی بلکہ کئی نسلوں کی عاقبت خراب کرتا ہے، میرے ان سوالوں پر ٹھنڈے دل سے غور کریں:۔

(۱) کیا اللہ سے الہام پانے والے کے کلام میں تضاد ہوتا ہے ؟

(۲) کیا ایک مجدد روح القدس سے مصفا ہونے اورمعصوم عن الخطاء ہونے کے بعد اسی طرح پینترے بدلتا ہے جس طرح مرزا صاحب نے بدلے ہیں؟

(۳) کیا مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت نہیں ہوتا کہ مرزا غلام احمد صاحب نے اسلامی عقائد کو رگیدتے ہوئے ایک ایسی نبوت کا اعلان کیا ہے جسکی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ؟

(۴) کیا اس طرح وہ تیس جھوٹے مدعی نبوت پیدا ہونگے والی حدیث کی زد میں نہیں آ گئے؟

(۵) کیا آپ مرزا صاحب کی نبوت پر ایمان لا کر، دین اسلام، قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تو نہیں چل رہے؟

میرے احمدی دوستو ! آخر آپ کو کس چیز کی مجبوری ہے جو ایک نبوت کے اگر جھوٹے نہیں تو کم از

کم غلطی خوردہ شخص کے پیچھے لگ کراس دنیا میں اپنی برادریوں ، رشتہ داروں سے کٹ گئے ہو، بجائے

خدا کی رضاکے ،عہدیداروں اور ایک خاندان کی رضا اور خواہش کو ماننے پر مجبور ہو۔اس خاندان نے

خدا کے نام پر تم سے تمہارا ایمان، خاندان، اولاد، عزت و آبرو، وقت، مال، جائداد، غرضیکہ ہر چیز پرقبضہ کر

کے تمہیں مزارعوں کی حیثیت دے دی ہے ۔ جس خاندان کی حالت بقول مرزا غلام احمد صاحب کے ایک

کمتر درجے کے زمینداروں جیسی ہو گئی تھی اور جسکی جائداد پر قرضہ تھا ، آج وہ خاندان تمہارے چندوں

کی بنیاد پر ارب پتی بن گیا ہے لیکن تمہارے پاس کیا ہے ؟

سب سے بڑھکر نہ صرف اپنی عاقبت گنوائی بلکہ اپنا نام دشمنان رسول میں لکھوا لیا۔ خدا کے لئے مرزا

غلام احمد کی کتابیں غور سے پڑھو اورجماعت کے پروپیگنڈہ سے آزاد ہو کر پڑھو تو تمہیں سوائے تعلیوں

کے اور ہر پیشگوئی کی تاویلوں کے اور گالیوں کے کچھ نہیں ملےگایا پھر مسیح کی خوشامد دجال کے دربار

میں نظر آئیگی !

سیرت مہدی مصنفہ مرزا بشیر احمد ابن مرزا غلام احمد صاحب کو پڑھو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ رسول

کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بیعت لیتے وقت بھی کسی عورت کے ہاتھ چھو جانے سے بھی سختی سے پرہیز

فرماتے تھے اور یہ (نعوذباللہ) بزعم خود محمد ثانی پوری پوری رات ناکتخدا لڑکیوں سے اور نامحرم عورتوں

سے جسم دبواتا تھا اور خدمت کراتا تھا۔

رسول کریم حسن صفائی کا نمونہ تھے اور یہ صاحب سلوٹوں بھرے کپڑے و پگڑی،واسکٹ کے بٹن کوٹ کے

کاج میں ، کوٹ کے بٹن قمیض کے کاجوں میں اور قمیض کے بٹن کہیں اور اٹکے ہوئے، واسکٹ اور کوٹ پر

تیل کے داغ، اور، جرابیں اس طرح پہنی ہوئی کہ ایڑی اوپر اور پنجہ آگے سے لٹکا ہوا، جوتے کا بایاں پاوں

دائیں میں اور دایاں پاوں بائیں میں، ایڑی بٹھائی ہوئی اور جب چلے تو ٹھپ ٹھپ کی آواز آئے، وٹوانی کی

مٹی کے ڈھیلے اور گڑ کی ڈلیاں ایک ہی جیب میں، (مزید تفصیل کیلئے سیرت مہدی مصنفہ مرزا بشیر احمد جلد اول،دیکھئے)

اپنے ایمان سے کہو کہ کیا نبی کا حلیہ ایسا ہی ہوتا ہے؟ ایسا تو ایک نارمل انسان کا بھی حلیہ نہیں

ہوتا!اس حلیہ اور جھوٹی قسموں کے بل پر یہ دعویٰ کہ سب رسول میرے کرتے میں ہیں ! سوچو کس کے

پیچھے لگے ہوئے ہو۔ یہ ایک نیا مذہب ہے جو اسلام پر ڈاکہ مار کراسلام کے لباس میں پیش کیا جا رہا ہے۔

اپنے ایمان سے کہو کہ جتنی بیعتوں کے دعوے ہر سال تمھارے خلیفہ صاحب کرتے ہیں اسکاہزارواں حصہ بھی

اپنی آنکھوں سے دیکھا؟ہر احمدی یہی سوچ رہا ہے کہ ہمارے شہر میں نہیں لیکن دوسرے شہر میں بڑی

بیعتیں ہوئی ہیں ہمارے ملک میں تو نہیں مگر دوسرے ملک میں ہوئی ہیں ، جہاں تک تم سے ممکن ہے

جائزہ تو لو، اپنے شہر میں دیکھو، دوسرے شہروں و ملکوںمیں اپنے سنجیدہ رشتہ داروں سے پوچھو تو ہر

کوئی دوسرے شہر کی بات کریگا، اور یہی کہے گا : " ہیں یار تمہاری طرف اور دوسرے شہروں میں بڑا

کام ہو رہا ہے لیکن ہمارے شہر میں لوگ سست ہیں" ۔

حیران نہ ہوں! جس جماعت کی بنیاد جھوٹے الہامات، جھوٹی قسموں،جھوٹی پیشگوئیوں اور مال و زر کی

خواہش پر رکھی گئی ہو اس میں ایسے ہی کاغذی کام، پروپیگنڈہ کے لئے ہوتے ہیں!یک طرفہ پروپیگنڈے

سے جان چھڑاو اور اپنی اور اپنے خاندانوں کی عاقبت خراب ہونے سے بچاو!

میں اپنی اپیل اس بات پر ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالےٰ آپکو اور مجھے بھی حق کو پہچاننے اور سمجھنے کی

توفیق دے اور جعلی مدعیان نبوت سے بچائے اور آپکا اور میرا خاتمہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خالص اور

اصلی دین پر ہو نہ کہ انگریزوں کے پٹھو کے دین پر یا کسی اور ۔راہ گم کردہ کی پیروی میں! آمین ثم آمین

آپ کا مخلص

مورخہ:۔ 19-08-2004 شیخ راحیل احمد ( سابق احمدی )

دوسرا کھلا خط بنام مرزا مسرور احمد . حصہ سوئم

اس طرح وقتی طور پر مخالفت کو کم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ، لیکن علمائے حق کے خدشات صحیح

نکلتے ہیں کہ ان صاحب(یعنی مرزا غلام احمد صاحب )کا مالیخولیا و مراق جیسے جیسے ترقی کرےگا،اسی

طرح ان کے دعویٰ جات بھی بڑھیں گے۔

مرزا صاحب کو مراق تھا یا نہیں؟میرے خیال میں یہ حوالہ کافی ہے! " ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے

مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹیریا ہے ۔ بعض اوقات

آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے۔{ سیرت المہدی حصہ دوئم، صفحہ 55، از مرزا بشیر احمد ایم اے } ۔

اور مراق کیا چیز ہے یہ حوالہ میرے خیال میں کافی رہے گا " ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو

جائے کہ اسکو ہسٹریا،مالیخولیا،مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردیدکے لئے پھر کسی اور ضرب

کی ضرورت نہیں رہتی، کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کوبیخ و بن سے

اکھاڑ دیتی ہے" مضمون ڈاکٹر شاہنواز صاحب قادیانی، مندرجہ ( رسالہ ریویو آف ریلیجنز، قادیان ، صفحہ ۶ و۷،بابت ماہ اگست 1926۔ بحوالہ قادیانی مذہب صفحہ 145) ۔

اب دیکھئے کہ مرزا صاحب کس طرح اپنے دعووں میں آگے بڑھتے بڑھتے نہ صرف رسول کریم کے مقام تک پہنچتے ہیں (نعوذباللہ)، بلکہ انکو پرے ہٹانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

(۱) "میرا نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ نبی بھی ہو جائے ..... اور ان نشانوں کا نام معجزہ رکھنا نہیں چاہتا بلکہ ہمارے مذہب کی رو سے ان نشانوں کا نام کرامت ہے جو اللہ و رسول کی پیروی سے دئے جاتے ہیں"۔ (جنگ مقدس ۔ر،خ ۔ج 6 /ص156)

(۲) "یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعویٰ میں نبی کا نام سن کر دھوکا کھا تے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کادعویٰ کیا ہے جو پہلے زمانے میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے۔لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں"۔( حقیقۃ الوحی حاشیہ، ر۔ خ، ج ۲۲، ص154 )

(۳) "یہ سچ ہے کہ وہ الہام جو خدا نے اس بندے پر نازل فرمایا اس میں اس بندہ کی نسبت نبی اور رسول اور مرسل کے لفظ بکثرت موجود ہیں سو یہ حقیقی معنوں پر محمول نہیں ....... مگر مجازی معنوں کی رو سے خدا کا اختیار ہے کہ کسی ملہم کو نبی کے لفظ سے یا رسول کے لفظ سے یاد کرے" ۔( سراج منیر، ر ۔خ ج12 ص 5 )

اب جب ہر طرف سے شور اٹھا توکیا وضاحت پیش کی جا رہی ہے۔

(۴) " نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدائے تعالیٰ کے حکم سے کیا گیا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ محدثیت بھی ایک شعبہ قویہ نبوت کا اپنے اندر رکھتی ہے" ۔( ازالہ اوہام،ر۔ خ، ج۳، ص 320)

(۵) محدث جو مرسلین میں سے امتی بھی ہوتا ہے اور ناقص طور پر نبی بھی ........... وہ اگرچہ کامل طور پر امتی ہے مگر ایک وجہ سے نبی بھی ہوتا ہے اور محدث کے لئے ضرور ہے کہ وہ کسی نبی کا مثیل ہو اور خدا تعالےٰ کے نزدیک وہی نام پاوے جو اس نبی کا نام ہے"۔ ( ازالہ اوہام، ر۔ خ، ج۳، ص 407)

(۶) " یہ عاجز خدا تعالےٰ کی طرف سے اس امت کے لئے محدث ہو کر آیا ہے ............ اور بعینہ انبیاء کی طرح مامور ہو کر آتا ہے اور انبیاء کی طرح اس پر فرض ہوتا ہے کہ اپنے تئیں بآواز بلند ظاہر کرے اور اس سے انکار کرنے والا ایک حد تک مستوجب سزا ٹہرتا ہے"۔( توضیح مرام، ر۔خ ج۳،ص 60)

(۷) مسیح موعود جو آنے والا ہے، اسکی علامت یہ لکھی ہے کہ وہ نبی اللہ ہو گا، یعنی خدا تعالےٰ سے وحی پانے والا۔ لیکن اس جگہ نبوت تامہ کاملہ مراد نہیں ....... سو یہ نعمت خاص طور پر اس عاجز کو دی گئی ہے"۔ ( ازالہ اوہام،ر۔خ،ج۳/ص478)

۔

اب ہوتا کیا ہے ان بے سروپا دعووں کی وجہ سے مخالفت بے انتہا بڑھ جاتی ہے، اس کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کے لئے ، ۲ اکتوبر 1891 کو ایک عاجز مسافر کا اشتہار کے نام سے ایک اشتہار شائع کرتے ہیں

(۸) " میں نہ نبوت کا مدعی ہوں۔ اور نہ معجزات اور ملائک اور لیلۃ القدر وغیرہ سے منکر بلکہ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہلسنت و الجماعت کا عقیدہ ہے، ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن اور حدیث کی رُو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافرجانتا ہوں " ( مجموعہ اشتہارات ج۱/ ص ۲۳۰) ۔

اسکے بعد۳ فروری 1892 کوعلمائے کرام سے بحث کے دوران گواہان کے دستخطوں سے تحریری راضی نامہ کرتے ہیں، اس میں لکھتے ہیں

(۹) " تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ " فتح اسلام " و" توضیح المرام " و" ازالہ اوہام" میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے، یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کئے گئے ہیں۔ ورنہ حاشا و کلا مجھے نبوت حقیقی کا ہر گز دعویٰ نہیں ............ سو دوسرا پیرایہ یہ ہے کہ بجائے لفظ نبی کے محدث کا لفظ ہر ایک جگہ سمجھ لیں اور اس کویعنی لفظ نبی کو کاٹا ہوا خیال فرما لیں"۔( مجموعہ اشتہارات، ج۱، ص ۳۱۲ و ۳۱۳) ۔

اسی طرح کبھی اقرار ، کبھی انکار، کبھی تاویلات کے ذریعہ قدم آگے بڑھاتے بڑھاتے آخر اس دعوے پر آ پہنچے کہ :۔

(۱۰) " سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا"۔ ( دافع البلاء،ر۔خ، ج 18/ص ۲۳۱)

(۱۱) " تو بھی ایک رسول ہے جیسا کہ فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا گیا تھا" (ملفوظات،ج۸/ص424 ) ۔

لیکن مرزا غلام احمد صاحب کی نبی و رسول بننے کے بعد بھی تشفی نہیں ہوتی بلکہ اب اپنے تاج نبوت پر مزید مینا کاری کرتے ہوئے صاحب الشریعت بن جاتے ہیں۔

(۱۲) شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعت ہو گیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں ، کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی" ( اربعین4، ر۔خ، ج17/ص435) ۔

لیکن ابھی بھی انکا مالیخولیا مرزا صاحب کو چین نہیں لینے دیتا ، کہ ابھی جہاں اور بھی ہیں کہ مصداق اب مزید آگے بڑھنے کے لئے کس ہوشیاری سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انکے مقام سے ہٹا کر خود بیٹھنے کی تیاری ہے۔

(۱۳) " اب اسم محمد کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں، یعنی اب جلالی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں کیونکہ مناسب حد تک وہ جلال ظاہر ہو چکا۔ سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے اور وہ احمد کے رنگ میں ہو کر میں ہوں"۔( اربعین 4 ، ر۔ خ، ج 17، ص445 و 446) ۔ اب ہوتا کیا ہے کہ بندہ سوچتا ہے کہ شاید بزعم خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو لے ہی چکے ہیں، نعوذباللہ۔ اب تو مرزا صاحب یہاں رک جائیں گے، مگر وہ مالیخولیا اور مراق ہی کیا جو رکنے دے ، اب رسول کریم سے اپنامقام کیسے بڑھایا جاتا ہے ؟فرماتے ہیں

(۱۴) " آسمان سے بہت سے تخت اترے پر میرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا" ۔( تذکرہ صفحہ 638) ۔

لیکن کیا یہاں بھی قیام کرتے ہیں یا نہیں؟ نہیں جناب ابھی ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ، فرماتے ہیں۔

(۱۵) " اسمع ولدی، اے میرے بیٹے سن" ،( البشریٰ جلد اول صفحہ 49 ) ۔ لیکن وہ اولولعزمی ہی کیا ہوئی جو کہیں چین لینے دے ، اسی طرح بغیر پلٹ کر دیکھے منازل طے کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

(۱۶) میں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں ......... سو میں نے پہلے توآسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا۔( کتاب البریہ، ر۔خ،ج ۱۳/ص ۱۰۳ تا ۱۰۵) ۔

دوسرا کھلا خط بنام مرزا مسرور احمد - حصہ دوئم

براہین احمدیہ :۔ مرزا صاحب نے سب سے پہلی کتاب براہین احمدیہ لکھی، براہین احمدیہ کی پہلی

چارجلدیں1884 میں شائع ہوئیں، اور پانچویں جلد23 سال کے بعدشائع ہوئی اور اس کتاب کے بارے میں

انکے یہ دعویٰ جات ہیں( دعوے تو بہت ہیں صرف چند کا ذکر کر رہا ہوں)

(۱) " اس عاجز نے ایک کتاب ...... ایسی تالیف کی ہے جس کے مطالعہ کے بعد طالب حق سے بجز قبولیت

اسلام اور کچھ نہ بن پڑے"۔{ اشتہار اپریل 1879 ، تبلیغ رسالت حصہ اول صفحہ 8}۔

(۲) اور مصنف کو اس بات کا بھی علم دیا گیا ہے کہ وہ مجدد وقت ہے اور روحانی طور پر اس کے کمالات

مسیح بن مریم کے کمالات سے مشابہ ہیں.......... اگر اس اشتہار کے بعد بھی کوئی شخص سچا طالب بن کر

اپنی عقدہ کشائی نہ چاہے اور دلی صدق سے حاضر نہ ہو تو ہماری طرف سے اس پر اتمام حجت ہے"۔{ بحوالہ

اشتہار نمبر 11، مجموعہ اشتہارات جلد 1/ ص 23 تا 25} ۔

(۳) " اس پراگندہ وقت میں وہی مناظرہ کی کتاب روحانی جمیعت بخش سکتی ہے کہ جو بذریعہ تحقیق

عمیق کے اصل ماہیت کے باریک دقیقہ کی تہہ کو کھولتی ہو" ۔{ بحوالہ اشتہار نمبر 16، مجموعہ اشتہارات ج ۱ /صفحہ 43}۔

(۴) سو اب اس کتاب کا متولی اورمہتمم ظاہراً و باطناً حضرت رب العالمین ہے۔" { اشتہار نمبر 18، مجموعہ اشتہارات ج۱ /ص 56}

مجدد کی تعریف میں مرزا صاحب فرماتے ہیں۔

(1) جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مجددیت کی قوت پاتے ہیں وہ نرے استخواں فروش نہیں ہوتے بلکہ

وہ واقعی طور پر نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور روحانی طور پر آنجناب کے خلیفہ ہوتے ہیں۔ خدا

تعالیٰ انہیں تمام نعمتوں کا وارث بناتا ہے جو نبیوں اور رسولوں کو دی جاتی ہیں .......... اور خدا تعالیٰ کے

الہام کی تجلی انکے دلوں پر ہوتی ہے اور وہ ہر ایک مشکل کے وقت روح القدس سے سکھلائے جاتے ہیں اور

انکی گفتار و کردار میں دنیا پرستی کی ملونی نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہ کلی مصفا کئے گئے اورتمام و کمال

کھینچے گئے۔{ فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد3، صفحہ7 حاشیہ } ۔

اپنی ذات کے بارے میں معصوم عن الخطا ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

(1) " اللہ تعالیٰ مجھے غلطی پر ایک لمحہ بھی باقی نہیں رہنے دیتا۔اور مجھے ہر ایک غلط بات سے محفوظ

رکھتا ہے"۔ { نورالحق حصہ دوئم، ر خ،ج8/ صفحہ272 }۔

(2) میں نے جو کچھ کہا وہ سب کچھ خدا کے امر سے کہاہے اور اپنی طرف سے کچھ نہیںکہا۔{ مواہب الرحمٰن، ر۔خ، ج19/ صفحہ221} ۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب آیت خاتم النبیین کی کیا تفسیر کرتے ہیں، مرزا صاحب اپنی کتاب ازالہ

اوہام میں فرماتے ہیں۔

(۱) " یعنی محمد تمہارے مردوں میں سے کسی مردکا باپ نہیں ہے،مگر وہ رسول اللہ ہے اور ختم کرنے والا

ہے نبیوں کا ۔

دوسری جگہ سورہ الاحزاب کی آیت 41(مندرجہ بالا) کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں

(۲) کیا تو نہیں جانتا کہ فضل اور رحم کرنے والے رب نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بغیر کسی

استثناء کے خاتم الانبیاء رکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لا نبی بعدی سے طالبوں کے لئے بیان واضح

سے اس کی تفسیر کی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں اور اگر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد کسی

نبی کے ظہور کو جائز قرار دیں تو ہم وحی نبوت کے دروازہ کے بند ہونے کے بعد اسکا کھلنا جائز قرار دیں

گے جو با لبداہت باطل ہے۔ جیسا کہ مسلمانوں پر مخفی نہیں اور ہمارے رسول کے بعد کوئی نبی کیسے آ

سکتا ہے جبکہ آپکی وفات کے بعد وحی منقطع ہو گئی ہے اور اللہ نے آپ کے ذریعہ نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا"

{ حمامۃ البشریٰ، ر۔خ، ج 7 /صفحہ 200 و 201}

(۳) " قران کریم بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا، خواہ وہ نیا رسول ہو یا پراناہو"۔{ ازالہ اوہام، ر۔ خ ،ج 3 / صفحہ511 }۔

(۴) حسب تصریح قرآن کریم ، رسول اسی کو کہتے ہیں جس نے احکام و عقائد دین جبرئیل کے ذریعہ

حاصل کئے ہوں لیکن وحی نبوت پر تو تیرہ سو برس سے مہر لگ گئی ہے،کیا یہ مہر اس وقت ٹوٹ

جائیگی؟ { ازالہ اوہام، ر۔ خ، ج3/ صفحہ 387}

ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب کا دعویٰ ہے کہ وہ مجدد ہیں اور قران انکو خدا نے سکھایا ہے اور

ہر قسم کے دلائل سے ، تحقیق سے اثبات صداقت اسلام پیش کرنے کے دعوے دار ہیں اور کوئی لفظ خدا کی

مرضی کے بغیر نہیں نکالتے، اور تجدید دین کےلئے خدا ان کو ایک لمحہ بھی غلطی پر نہیں رہنے دیتا، اس

حیثیت میں وہ ختم نبوت کا انہی معنوں میں اقرار کر رہے ہیں جن معنوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ

وسلم، صحابہ رضی اللہ عنہ اور آئمہ دین و مسلمان تیرہ صدیوں سے ایمان رکھتے تھے۔ اور اسکے علاوہ کسی

بھی دوسرے قسم کے معنی کو کفر قرار دے رہے ہیں، مرزا صاحب کے بیٹے و خلیفہ ثانی بھی ہمارے اس یقین

کی تصدیق کرتے ہیں، فرماتے ہیں" الغرض حقیقۃالوحی کے حوالہ نے واضح کر دیا کہ نبوت اور حیات مسیح

کے متعلق آپکا(مرزا غلام احمد صاحب۔ناقل) عقیدہ پہلے عام مسلمانوں کی طرح تھا مگر پھر دونوں میں

تبدیلی فرمائی"۔ { بحوالہ الفضل 6 ستمبر 1941، خطبہ جمعہ کالم 3} ۔

اب ہوتا کیا ہے کہ کچھ علمائے حق نے خدا کی دی ہوئی فراست سے اندازہ لگا لیا کہ ان صاحب کا ارادہ نبی

بننے کا ہے اور انہوں نے جب اعتراض اٹھائے تو مرزا صاحب کے جوابات ملاحظہ ہوں۔ " ان پر واضح رہے کہ

ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں{ اشتہار،مجموعہ اشتہارات ج 2، ص 297 و 298 } ۔

دوسرا کھلا خط بنام مرزا مسرور احمد

بسم اللہ الرّحمٰنِ الرَّ حِیم ۔ نحمدُ ہ‘ وِ نُصَلِیّ علیٰ رسُولِہِ الکریم

دوسراکھُلا خط

منجانب شیخ راحیل احمد جرمنی ______ بنام _____ جناب مرزا مسرور احمد صاحب امام جماعت احمدیہ

سابق احمدی، سکنہ ربوہ، (حال مقیم) جرمنی و احباب جماعت احمدیہ

محترم خلیفہ صاحب و بزرگو و دوستو السلام علیٰ من اتبع الھدیٰ

خاکسار آپ میں سے بہت سوں کی طرح احمدی ماں باپ کے گھر میں پیدا ہوا، ربوہ میں پلا بڑھا، اور آپ ہی کی طرح کچھ عرصہ قبل تک اندھے یقین اور جماعت کے بزرجمہروں کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈہ کا شکار ہو کر مرزا غلام احمد صاحب کو مہدی موعود، مسیح موعود اور نبی خیال کرتا تھا، مگر اچانک ایک واقعہ نے مجھے توجہ دلائی اور میں نے مرزا غلام احمد صاحب کی کتب اور سیرت کا مطالعہ غیر جانبدار ہو کر کیا تو مرزا صاحب کے دعویٰ جات صرف اور صرف تضادات کا شاہکار نظر آئے۔

مرزا غلام احمد صاحب نے خود لکھا ہے کہ "جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے" { براہین احمدیہ حصہ پنجم، رخ، ج ۱۲/ صفحہ 275 } ۔

اور انہی تضادات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جناب مرزا صاحب کا دعویٰ جات نہ صرف بے بنیاد ہیں بلکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور انکے مقام نبوت پر حملہ ہیں۔ چونکہ میری عمر کا ایک بڑا حصہ آپ لوگوں میں گزرا ہے اس لئے قدرتی طور پر میں آپ کے لئے ایک للہی لگاو محسوس کرتا ہوں اور اسی وجہ سے یہ چند سطور آپکی خدمت میں پیش خدمت ہیں، میری آپ سے درخواست ہے کہ انہیں پڑھئے اور ایک بار غور ضرور کیجئے۔

جناب مرزا صاحب کا دعویٰ ہے کہ براہین احمدیہ میں ہی خدا نے انکا نام نبی اور رسول رکھا ہے، فرماتے ہیں " کہ خدا تعالےٰ کی وہ جو پاک وحی جو میرے پر نازل ہوتی ہے، ایسے الفاظ رسول اور مرسل اور نبی کے موجود ہیں ........ . اور براہین احمدیہ میں بھی جس کو طبع ہوئے بائیس برس ہوئے یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں( دیکھو صفحہ 498 براہین احمدیہ) اس میں صاف طور پر اس عاجز کو رسول کر کے پکارا گیا ہے"۔{ ایک غلطی کا ازالہ، رخ، ج 18/ صفحہ 206 } ۔ آئیے قران کریم ، احادیث اور مرزا صاحب کی اپنی تحریروں سے جائزہ لیں کہ مرزا صاحب کا مقام کیا ہے؟ اور وہ اپنی تحریروں کے آئینے میں کیا ہیں؟

قرآن کریم میں واضح طور پر لکھا ہے "نہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم میں سے کسی مرد کے باپ تھے نہ

ہیں(نہ ہونگے )لیکن اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر ایک چیز سے خوب آگاہ ہے۔ الا حزاب: 41

یہ ترجمہ تفسیر صغیرسے لیا گیا ہے جوجماعت احمدیہ نے شائع کیا ہے)۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالےٰ نے

بڑی وضاحت اور مثال دیکر بتا دیا کہ جس طرح حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی مرد کے باپ

نہیں ، اسی طرح وہ نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔ توآئے دیکھیں کہ حدیث ان معنوں کی تصدیق کرتی ہے

یا نہیں، اس سلسلے میں تین مختلف ادوار کی احادیث پیش خدمت ہیں۔

(۱)حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میری اور دوسرے انبیاء کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی

شخص نے گھر بنایا اور اسے بہت عمدہ اور آراستہ و پیراستہ بنایا مگرایک زاویئے میں ایک اینٹ کی جگہ

خالی چھوڑ دی، لوگ اس گھر کے ارد گرد گھومتے اور اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے اور کہتے کہ یہ

ایک اینٹ بھی کیوں نہ لگا دی گئی؟ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا(قصر نبوت کی) یہ

اینٹ میں ہوں، میں نے اس خالی جگہ کو پر کر دیا، قصر نبوت مجھ سے ہی مکمل ہوا اور میرے ساتھ ہی

انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا"۔ {بخاری، مسند احمد، نسائی،ترمذی، ابن عساکر}۔

اسکا مطلب ہے وہ ایک اینٹ جو رکھ دی گئی اس میں اب کوئی اینٹ نہ لگے گی اور نہ نکلے گی۔

(۲)حجۃ الوداع کے اہم ترین موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ" لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ نہ

تو میرے بعدکوئی نبی ہو گا اور نہ تمہارے بعد کوئی امت! تو تم اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں

پڑھتے رہو، رمضان کے روزے رکھو، اپنے اموال کی زکوٰۃ بخوشی ادا کرو اور اپنے اولولامر کی اطاعت کرو،

تم اپنے مالک و آقا کی جنت میں داخل ہو سکو گے { کنزل اعمال، علی حامش، مسند احمد صفحہ ۱۹۳}

اب آپ دیکھیں کہ یہ حدیث انتہائی وضاحت سے بتا رہی ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے لئے رسول کریم

صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا نہ ہونے پر ایمان پہلی شرط ہے اور اسکے بعد دوسری باتوں پر یعنی

پنج ارکان اسلام پر ایمان ضروری ہے۔ یہ اعلان اس وقت کے مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع میں کیاتھا ۔

(۳) اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرض وفات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں ، عبداللہ بن عمر

رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ایسا دکھائی دیتا

تھا کہ حضور ہمیں الوداعی خطاب فرما رہے ہیں، آپ نے تین مرتبہ فرمایا " میں اُمی نبی ہوں اور میرے بعد

کوئی نبی نہیں جب تک میں تم میں موجود ہوں ، میری بات سنو اور اطاعت کرو اور مجھے دنیا سے لے

جایا جائے تو کتاب اللہ کو تھام لو، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو۔{ رواہ احمد} یعنی وقت

وصال کے وقت بھی یہی تاکید تھی کہ حضور کے بعد کوئی نبی نہیں۔

اوپر دیئے گئے حوالوں سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں

اور ان کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا۔ لیکن کیا اوپر دئے گئے حوالوں کی کوئی تاویل ہو سکتی ہے؟

قبل اس کے ہم ختم نبوت کے موضوع پر مرزا صاحب کے ارشادات پیش کریں مرزا غلام احمد صاحب کے

اپنے بارے میں اور انکی کتاب براہین احمدیہ کے بارے میں اور مجدد کے متعلق کچھ ان کے اپنے ارشادات

بیان کر دیں ، کیونکہ یہ ارشادات آپ کو ممکن ہے کہ میرا مافی الضمیر سمجھنے میں مدد کریں۔