القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Tuesday, June 9, 2009

قادیانی خلیفہ مرزا مسرور اور لعنت اللہ علیٰ الکاذِ بین - حصہ اول

تحریر و تحقیق : مجاہدِ ختم بنوت شیخ راحیل احمد مرحوم

قادیانی جماعت کے سر براہ مرزا مسرور احمد نے اپنا 3 مارچ 2006 کا سارا خطبہ ایک دن قبل ”روزنامہ جنگ لندن“ میں جناب جاوید کنول نمائندہ جیو و جنگ کی چھپنے والی خبرپر دیا ہے، اور جس میں انہوں نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں ” لعنت اللہ علیٰ ا لکاذ بین“۔ اس خطبہ کے نتیجے میں،ہم بھی کہتے ہیں کہ جھوٹوں پر لعنت۔اگر ہم جنگ لندن کی خبر پڑھیں تو ہمیں یہ پوائنٹس ملتے ہیں :-
مرزا مسرور صاحب نے ڈنمارک کا دورہ کیا۔
•مرزا مسرور صاحب کی ڈنمارک کی ایک وزیر سے ملاقات ہوئی، جس میں سرکاری حکام بھی شامل تھے۔
•مرز ا مسرورصاحب کے مطابق اب مرزا غلام احمد ہی تا قیامت نبی ہیں،انہوں نے جہاد کو منسوخ قرار دیا اسکو ماننے کی وجہ سے انکی جماعت کو اصلی اور بہتر مسلمان قرار دیا، اور یہ تاثر دیا کہ سوائے سعودی عرب کے اور باقی دنیا میں مسلمان جہاد پر یقین نہیں رکھتے۔

اسی وجہ سے ڈینش اخبار کو جہاد پر بارہ(12)کارٹون شائع کرنے کا حوصلہ ہوا ہے۔
ہم ان باتوں کا تجزیہ کرتے ہیں کہ کیا واقعی جنگ کے رپورٹر نے جھوٹ بولاہے، یا اب مرزا مسرور صاحب کے دورہ کے جو نتائج برآمد ہو رہے ہیں ان کی ذمہ داری سے بچنے کے لئے اور اپنی جماعت کے افکار کو چھپانے اور اپنا چہرہ بچانے کے لئے قانونی کارروائی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی قانونی کاروائی کی انکے پاس کوئی بنیاد نہیں، اور قانونی کاروائی ، قادیانی جماعت کے لئے ہر دور ، ہر ملک میں خسارے کا سودا ثابت ہوئی ہے۔
مرزا مسرور صاحب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے ستمبر 2005 میں ڈنمارک کا دورہ کیا۔ اس دورہ میں انہوں نے کیا کِیا اور کہا، تفصیلی موضوع ہے،ہم ایک دو باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مسرورصاحب نے پریس کے نمائندہ کو کہا کہ ،”ہم عیسائیت کی تعلیم کے مطابق کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال بھی پیش کر دو، اپنا دوسرا گال بھی پیش کرنے آئے ہیں“۔ جناب مرزا مسرور صاحب اس پر میرے سوال یہ ہیں :۔
(۱) آپ خود کو اسلام کا اصلی نمائندہ کہتے ہیں اور آپکی عملی پوزیشن یہ ہے کہ آپکو اسلام کی متوازن و امن پسندی کی تعلیم ظاہر کر نیکے لئے قرآن سے تو کچھ نہ ملا۔ ملا تو صلیبی مذہب سے ، جسکے بارے میں بانی جماعت احمدیہ کا کہنا ہے کہ” اس مذہب کی بنیاد محض ایک لعنتی لکڑی پر ہے، جسکو دیمک کھا چکی ہے۔
(۲) دوسرے آپکی جماعت کے گالوں پر ڈنمارک میں کونسے تھپڑ پڑ رہے تھے کہ آپکو دوسرا گال پیش کرنے کی ضرورت پڑ گئی؟ آپ تو الٹا وہاں مسلمانوں کے حقوق پر بھی قبضہ جمائے ہوئے ہیں اور آپکے اس سے قبل ایسے کوئی بیان نہیں کہ جس سے ظاہر ہو کہ ڈنمارک میں آپکی جماعت کو کوئی تکلیف ہو؟
(۳) آپ نے بانی جماعت احمدیہ کی متابعت میںیہ کیوں نہ کہا کہ اے بدبو دار مذہب والو ہم (پاک صاف) لوگ اپنا دوسرا گال بھی پیش کرتے ہیں؟ کیونکہ اگر آپ اپنے پردادا کے سچے جانشین، اور حق بات بیان کرتے ہیں تو یہاں آپنے منافقت سے کام لیا یا اپنے دادا کا قول بھول گئے، آپکے پردادا فرماتے ہیں” عیسائیت ایک بدبودار مذہب ہے"۔

مرزا مسرور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک ریسیپشن میں وزیر سے ملاقات ہوئی تھی۔ اور ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ایسی ریسیپشن دی ہی اس لئے جاتی ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال ہو اور خوشگوار ماحول میں، ہلکے پھلکے انداز میںایک دوسرے کو اپنا موقف واضح کر دیا جائے، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے موقع سے مرزا مسرور فائدہ نہ اٹھائیں اور اپنی جماعت کو دوسرے مسلمانوں سے بہتر ثابت کرنے کے لئے اپنے پردادا کی نبوت کا نہ بتائیں اور اپنی جماعت کی امن پسندی ظاہر کرنے کے لئے اپنی(خود ساختہ) نبوت کے بل پر جہاد کی منسوخی کا جو اعلان کیا ہے اسکے متعلق نہ بتائیں؟ یہ انکا حق ہے۔
لیکن کیا اسکے ساتھ انہوں نے ان حکام اور وزیر کو یہ نہیں بتایا کہ جہاد کی منسوخی کے ساتھ انکے پردادا کا ایک عہد یہ بھی تھا ” بخدا میں صلیب کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے چھوڑونگا“۔ اور اگر انہوں نے اپنی جماعت کا موقف نہیں بتایا تو کیا وہ اپنے پیشرو، خلیفہ ثانی کی طرح، یورپین سوسائٹی کا عیب والا حصہ، اپنے پیشرو سے بھی زیادہ قریب اور بہتر انداز سے دیکھنے کے لئے اس ریسیپشن میں شامل ہوئے تھے؟بہر حال وہ بڑے آدمی ہیں ، بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ؟

No comments:

Post a Comment

بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔