القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Monday, June 8, 2009

دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری - حصہ چہارم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

دعوہ جات :۔ مرزا صاحب کے دعویٰ جات جو اس فقیر درِ مصطفےٰ نے ذاتی طور پر پڑھے ہیں وہ ایک سو (۱۰۰) سے بھی کہیں زیادہ ہیں، ایک بار ایک ذہنی مریض عورت کہیں دیکھی تھی، اس کا کام یہ تھا کہ جب بھی اسکو کپڑے کا کوئی ٹکڑا کہیں نظر آتا تھا اور اچھا لگتا تھا تو وہ اس ٹکڑے کو اپنے لباس کے ساتھ سی لیتی یا ٹانک لیتی تھی۔ یہی حال مرزا صاحب کا تھا جو دعویٰ انکو پسند آگیا وہ انہوں نے اپنے اوپر چسپاں کر لیا۔ اور یہ سفر مناظر اسلام سے شروع ہوا اور ملہمیت، مجددیت، مسیحیت، مہدویت، نبوت، رسالت، جے سنگھ بہادر وغیرہ وغیرہ سے ہوتا ہوا خدا کے بیٹے اور پھر خدائی تک پہنچا۔ وہاں سے لوٹ کر پھر ہندو مذہب کے اوتاروں اور دیوتاوں کی طرف شروع کیا ابھی مرلی دھر یعنی کرشن اوتار تک ہی پہنچے تھے کہ ان کی زندگی ہی انکو دغا دے گئی ، ورنہ امید واثق تھی کے ہندوں کے خدا تک پہنچنے کے بعد افریقہ اور پھر جنوبی امریکہ وغیرہ کے مقدس ناموں کا استحصال کرتے ، اور اسکے بعد آسٹریلیا وغیرہ کی باری آ جاتی۔خدا انکی مغفرت نہ کرے، مرحوم عجب آزاد و مردم آزار مرد تھے۔
نشانات :۔ مرزا صاحب کے بقول کبھی انکے نشانات پچاس لاکھ تک جا پہنچتے ہیں اور کبھی تین لاکھ اور کبھی دس لاکھ، اور ساتھ یہ دعویٰ بھی ہے کہ کھلے کھلے نشانات کم از کم دس لاکھ ہیں اور جب نشانات لکھنے بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس کتاب میں تین سو نشانات لکھوں گا اور دو سو نشانات لکھ کر ہی تھک جاتے ہیں اور معشوق کے نہ پورے ہونے والے وعدے کی طرح وعدہ کرتے ہیں کہ اگلی کتاب میں تین سو نشان لکھوں گا مگر مرد کا وعدہ ہو تو پورا ہو، یہ تو مرزا جی کا وعدہ تھا جو کبھی پورا نہ ہوا۔مولانا منظور چنیوٹی ؒ کے بقول اگر انکے ہر سانس کے علاوہ انکی خارج کی ہوئی ریح کو بھی مرزا صاحب کے نشانات میں شمار کر لیں توپھر بھی پچاس لاکھ نشانات پورے نہیں ہوتے۔ مرزا صاحب کی عمر68 سال تھی، اب اس عمر پر انکی پیدائش سے لیکر وفات تک، پچاس لاکھ نشانات کو تقسیم کریں توتقریباً ہر سات منٹ پر ایک نشان بنتا ہے، یعنی مرزا صاحب نے پیدا ہوتے ہی ہر ساتویں منٹ پر ایک نشان دکھانا/جننا شروع کر دیا تھا اور موت تک ہر سات منٹ پر ایک نشان دکھاتے گئے، اور وہ نشانات کہاں گئے؟جس طرح مرزا صاحب نے عبدالحق اور اسکی بیوی کے بارے میں کہا تھا ، انہی لفظوں میں ہم سوال کر تے ہیں کہ کیا مرزا صاحب کے اندر ہی اندر تحلیل ہو گئے یا رجعت قہقری کر کے سوادی بخارات بن کر انکے دماغ کو چڑھ گئے ۔آخر گھوم پھر کر روپیہ پیسہ، آنے کو نشانات قرار دینا شروع کیا مگر وہ بھی ڈیڑھ سو سے زیادہ نہ گنا سکے، کوئی چار آنے ملنے کا تھا ، کوئی دس روپے ملنے کا تھا ، کوئی بیس روپے ملنے کا تھا۔
نشانات کے گواہ :۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ ان نشانوں کے سب سے بڑے گواہ قادیان کے لالہ ملاوا مل اورلالہ شرمپت ہیں، کیا کہنے اس ”اسلام کے پہلوان نبی“ کے کہ اسکو گواہی کے لئے کوئی مسلمان نہیں ملا اور نہ ہی کوئی اہل کتاب ملا، ملے تو قادیان کے ساکنان ہندو! اور پھرجن کو یہ سب سے بڑا گواہ قرار دے رہے ہیں، انہی ہندوں کی گواہی کیا کہتی ہے؟ یہ بھی مرزا صاحب کی اپنی زبانی ہی سن لیجئے۔ قادیان میں لالہ ملاوا مل نے لالہ شرمپت کے مشورے سے اشتہار دیا جس کو قریباً دس برس گزر گئے ۔ اس اشتہار میں میری نسبت یہ لکھاکہ یہ شخص محض مکار فریبی ہے اور صرف دکاندار ہے لوگ اسکا دھوکہ نہ کھاویں۔ مالی مدد نہ کریں ورنہ اپنا روپیہ ضائع کریں گے۔
مشہور پیشگوئیاں :۔ مشہور پیشگوئیاں جو کبھی پوری نہ ہوئیں، سب سے پہلی پیشگوئی ایک بابرکت لڑکا پیدا ہونے کی ہے ، جسکو مرزا صاحب نے کئی بار دہرایاکسی بیٹے پر چسپاں کیا، کسی پر کہا کہ شاید یہی ہو اور پھر آخر کار اسکو اپنے چوتھے لڑکے پر چسپاں کردیا لیکن وہ ۸۔۹ سال کی عمر میں مر گیا تو آخری بار اپنی موت سے چند مہینے قبل پھر اس پیشگوئی کو دہرایا ۔مرزا صاحب مرتے مر گئے مگر وہ بابرکت لڑکا نہ پیدا ہوا ، اور مرزا صاحب کی موت کے بعد انکے بیٹے مرزا بشیرالدین محمود سمیت بے شمار لوگوں نے اپنے آپ کو مرزا صاحب کا روحانی فرزند قرار دیکر اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیا اور اس سلسلے کی تازہ ترین کڑی جرمنی میں مصلح موعود ہونے کے دعویدار عبدالغفار جنبہ ہیں اور فی نفسہ شریف آدمی ہیں لیکن وہ بھی اپنے نبی کی طرح مراق کا شکار ہیں شاید اسی وجہ سے انکی روایتی شرافت، دیانت اور وضع داری ان سےرخصت ہوتی جا رہی ہے اور وہ بھی اپنے نبی کی طرح اوفو بعہد کم / لما تقولون مالا یفعلون سے دامن چھڑا چکے ہیں ۔
دوسر ے لیکھرام کی پیشگوئی ، جس کا اس کے مارے جانے کے بعد پہلے کسی قسم کی پیشگوئی کا انکار کیا گیا بعد میں معاملہ ٹھنڈا ہونے پر اسکی موت اپنی پیشگوئی کا نتیجہ قرار دے دی۔
تیسری پیشگوئی عبداللہ آتھم کی موت کی پیشگوئی ہے، جب پیشگوئی کی گئی تو کہا گیا کہ آتھم آج کی تاریخ سے پندرہ مہینہ کے اندر نہ مرا تو مرزا صاحب کا منہ کالا کیا جائے ، انکے گلے میں رسہ ڈالکر انکو پھانسی دی جائے، لیکن وہ انکی تمام کوششوں حتیٰ کہ میعاد ختم ہونے کی آخری رات تک ٹونے ٹوٹکے کرنے کے باوجود آتھم نہ فوت ہواتو مرزا صاحب نے کہا کہ اس نے دل میں رجوع کر لیا تھا، سوال یہ ہے کہ اگر آپ اللہ کے نبی تھے اور اللہ نے آپ سے اسکی موت کا اعلان کرایا تھا تو اللہ نے مرزا صاحب کو ذلت سے بچانے کے لئے اسکا رجوع بھی علی ٰلاعلان نہیں کروایا ۔ اور پھر اسنے اپنا رجوع بھی تسلیم نہیں کیا لیکن اسکے بعد بھی وہ کافی عرصہ زندہ رہا۔

No comments:

Post a Comment

بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔