دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری : حصہ دوم
تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد
خاندان :۔ مرزا صاحب اپنی ایک نظم میں لکھتے ہیں کہ انکی نسلیں ہیں بے شمار، اگر آپکے سامنے یہ بات کوئی اپنے بارے میں کہے تو آپ اسکو کیا کہیں گے؟ اپنی سوانح میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ انکے بزرگ سمرقند سے ہندوستان میں آئے تھے اور وہ مغل برلاس ہیں۔ پھر ایک جگہ لکھتے ہیں کہ انکو اللہ نے الہاماً بتایا کہ انکی قوم مغل ہے نہ فارسی، اسلئے وہ فارسی النسل ہیں لیکن اللہ انکو یہ بتانا بھول گیا کہ وہ مغلوں کی اولاد ہوتے ہوئے بھی مغل سے فارسی النسل کیسے بنے؟ پھر اسکے بعد فاطمی ہونے کا دعویٰ بھی ہے، اور ساتھ میں انکو اسرائیلی پیوند بھی لگا ہوا ہے، یہ نصف فاطمی اورنصف اسرائیلی پیوند کیسے اور کب لگے، اسکے بارے میں بات اسی طرح مشکوک ہے جیسے کہ فارسی النسل کیسے بنے۔ اور اگر یہ دونوں نصف نصف ہیں تو باقی پیوندوں نے اپنی جگہ کیسے بنائی؟ پھر چینی النسل ہونے کا بھی دعویٰ ہے، اور ہاں سیدوں کے داماد ہونے کی وجہ سے سید بھی ہیں۔ اب مرزا صاحب نے اتنے آپشن آپکو اپنے خاندان کے دے دئے ہیں ، جو آپکا دل آئے سمجھ لیں۔یا پھر تحقیق کرتے رہیں کہ کس خاندان سے ہے تعلق مرزا قادیانی کا؟صحیح جواب پانے والے کو انعام۔
شکل وصورت :۔ اصل میں شکل و صورت ، ناک و نقشہ اللہ تعالےٰ کی دین ہے جسکو چاہے جیسا بنا دے ، لیکن مرزا صاحب کی اپنی الہامی دعوت ہے کہ ،” دیکھ کیا کہتی ہے تصویر تمہاری“، اس لئے ہم بلا تبصرہ جو نظر آرہا ہے بیان کر دیتے ہیں۔تصویر دیکھیں تو حلیہ اور سٹائل سے سکھ نظر آتے ہیں۔ ناک نسبتاً موٹی اور موٹے ہونٹ ، پچکے گال جو داڑھی کی وجہ سے اتنے نمایاں نظر نہیں آتے ، ڈیڑھ آنکھ، چوڑا ماتھا، پتلی گردن۔ داڑھی نے انکے اصل حلیہ پر پردہ ڈال دیا ، لیکن پھر بھی بہت کچھ کہتی ہے تصویر تمہاری مرزا صاحب۔
لباس :۔ پہلے جب تک باپ بھائی زندہ رہے پبلک میں کسی حد تک طریقے سے لباس پہنتے رہے۔ ان دونوں کے مرنے کے بعد مرزا صاحب نے صحیح طور پر مذہبی دکانداری شروع کی تو اسکے بعد دن بدن اپنا حلیہ مضحکہ خیز بناتے گئے۔ گرمیوں میں بھی واسکٹ اور کوٹ پہنتے، قمیض کے بٹن کوٹ میں کوٹ کے واکٹ میں اور واسکٹ کے قمیض میں ، اور بعض دفعہ اوپر کا بٹن نیچے لگا ہوتا، اور کوٹ یا واسکٹ کے کاج میں ایک بڑے سے رومال کا کونہ بندھا ہوتا، اس رومال کے ایک کونے میں کچھ پیسے بندھے ہوتے ، اور دوسرے کونے میں ایک جیبی گھڑی بندھی ہوتی جو اکثر چابی نہ دینے کی وجہ سے بند رہتی ، اور اگر مرزا صاحب خود ٹائم دیکھتے تو ہندسوں پر انگلی رکھ رکھ کر ایک ایک ہندسہ گن کر ٹائم کا پتہ چلاتے ، پہلے غرارہ بھی پہنا کرتے تھے لیکن پھر دوسری بیگم کے زور دینے پرشلوار پہننے لگے، ریشمی نالہ ہوتا تھا جسکے پھندنے کے ساتھ چابیوں کا گچھا بندھا ہوتا تھا، جو چلتے وقت چھنن چھنن کی آواز پیدا کرتا(ہو گا)۔ بائیں اور دائیں پاوں کی تمیز نہیں کر سکتے تھے، حتیٰ کہ بیگم دائیں بائیں کی تمیز کے لئے جوتوں پر نشان بھی لگا دیتی تھیں لیکن پھر بھی (جان بوجھ) کر دائیں بائیں پاوں کی تمیز نہیں کر سکتے تھے۔اوپر سے اگر انگریزی جوتی ہوتی تو غلط پہن کر کہتے کہ انگریزوں کی کوئی چیز بھی ٹھیک نہیں لیکن اسکے باوجود انکی کاسہ لیسی کرتے رہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو انکی غلامی کی تر غیب دیتے رہے ،انگریزی بوٹوں کی ایڑی بٹھا لیتے اور پھر جب انکے ساتھ چلتے تو ٹھپ ٹھپ کی آواز پیدا ہوتی، اور اسطرح اور اس حلیہ میں قادیان کے بانکے کی بانکی ٹور دنیا دیکھتی۔
طریقہ واردات :۔ مذہبی دکانداری کے لئے بظاہر سادگی کافی ہوتی ہے لیکن مرزا صاحب بڑے پیمانے پر یہ کام کرنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے مسمریزم میں مہارت حاصل کی، اور مسمریزم کا اصول یہ ہے کہ جسکو آپ معمول بنانا چاہتے ہیں اس میں آپکے عمل کیلئے مزاحمت نہ پیدا ہو اور جب کوئی نیا آدمی آتا تو یہ دیکھتے ہی کہ جو آدمی بٹن نہیں صحیح بند کر سکتا، کپڑوں پر تیل لگا ہوا ہے اور بائیں پاوں کا جوتا دائیں پاﺅں میں اور دائیں کا بائیں پاوں میں تو یقیناً سوچتا کہ اس سے کسی کو کیا خطرہ ہونا ہے اور مرزا صاحب بھی شروع میں ایسی باتیں کرتے کہ وہ جی یا ہاں میں ہی جواب ہو اور اس طرح جب وہ لاپرواہ ہو جاتا اور مرزا صاحب کو بے ضرر سمجھتا تو مرزا صاحب کسی مناسب موقع پر اسکو اپنا معمول بنا کر مرید بنا لیتے جس سے وہ ساری زندگی لا شعوری طور پر مرزا صاحب کی ہر جائز ناجائز بات پر آمین کرتا رہتا۔ اور جو لوگ ظاہری حلیہ کے دھوکہ میں نہیں آتے اور محتاط رہتے اکثر مرزا صاحب کے ہاتھوں سے بچ کر نکل آتے۔
حیاء:۔ سیرت المہدی مصنفہ مرزا بشیر احمد پسر مرزا جی اور سیرت المہدی مصنفہ پیر سراج الحق نعمانی اور ذکر حبیب مصنفہ مفتی صادق سے ایسے واقعات کا پتہ چلتا ہے کہ ان کے گھر میں ملازمائیں یا رہنے والی مختلف عورتیں انکے سامنے انکی موجودگی میں کپڑے اتارے اورنہانے بیٹھ گئیں یا نہا کر ننگی ہی سامنے سے گزر کر کپڑے اٹھانے گئیں اور مرزا صاحب وہیں بیٹھے رہے اور کسی کو نہ ٹوکا نہ روکا، اور نہ ہی ہمیں کوئی ایسی روایت ملتی ہے کہ مرزا صاحب نے یا انکے اہل خانہ نے اسکی مذمت کی ہو یا ان ملازماوں کو فارغ کر دیا ہو۔ کیا ایک عام حیا دار آدمی بھی ایسا کر سکتا ہے ؟ کہا گیا کہ وہ دیوانی تھیں ، لیکن مرزا صاحب تو فرزانے تھے یہ کیوں نہ اٹھ گئے؟
اگر ملازم کو پتہ ہو کہ اسکا مالک حیا دار ہے تو وہ اسکی موجودگی میں تو بہت دور کی بات ہے، غیرموجودگی میں بھی ایسی حرکت کی جرات نہیں کرتا ، اگر کہیں کہ گھر میں اور بھی عورتیں تھیں، تو کیا عورت کا عورت سے حیا کا پردہ نہیں ہوتا ؟ اور پھر عورت بڑی بے تکلفی سے کہہ رہی ہے کہ” اونہوں کجھ دیدا ای نہیں“، اسکا مطلب ہے کہ پہلے بھی تجربے ہوتے رہے ہیں۔ یہ اتفاق سے کسی ایسی عورت یا عورتوں کی نظر میں بات آگئی تو باہر بھی نکل آئی۔ ایک سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہوئے، کم از دو تین کتابوں میں یہ روایتیں ایسی ملتی ہیں، ممکن ہے کہ انکی بیگم کے ایما اور رضامندی سے ان ”دیوانی عورتوں“ نے یہ حرکات کی ہوں؟ مرزا صاحب کے جذبات کو ”تحریک جدید“ دینے کے لئے؟کیونکہ مرزا صاحب نے کئی جگہ اپنے نامرد ہونے اور قوت باہ کی دوائیاں متواتر استعمال کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ کیامجدد، نبی و رسول کے دعویدار کا کردار ایسا ہی ہوتا ہے؟
Monday, June 8, 2009
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment
بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔