القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Monday, June 15, 2009

مرزا صاحب اور حدیث - حصہ دوم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

اور دوسری جگہ بیان کرتے ہیں کہ’’یاد رکھو کہ جو شخص احادیث کو ردی کی طرح پھینک دیتا ہے وہ ہر گز ہر گز مومن نہیں ہو سکتا کیونکہ اسلام کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے کہ جو بغیر مدد احادیث ادھورا رہ جاتا ہے۔ جو کہتا ہے کہ مجھے احادیث کی ضرورت نہیں وہ ہر گز مومن نہیں ہو سکتا۔ اسے ایک دن قرآن کو بھی چھوڑنا پڑیگا‘‘۔ ملفوظات/ ج ۱۰ / ص ۲۶۵۔
اس موقف کے بعد مرزا صاحب اور انکی جماعت اب ان حدیثوں کی تاویلیں اور جرح کیوں کرتی ہے؟کیا اس لئے کہ اسکے بغیر خود ساختہ نبوت کا کوئی راستہ نظر نہ آیا ؟اب مرزا صاحب اپنے مقاصد کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ اوپر دئے گئے دونوں حوالوں کو ذہن میں رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کتنی فنکاری سے احادیث کو قرآن کریم کا مقابل قرار دیکر احادیث کے وجود کے بارے میں سوال کھڑے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
٭ مرزا صاحب نے ایک اور آسان نسخہ ڈھونڈا کہ جو انکے دعوے ہیں یعنی خروج دجال اور نزول عیسیٰ کی علامات و آثار ، نہایت تفصیل کے ساتھ احادیث میں موجود ہیں اور انکے پاس ان سے بھاگنے کی کوئی صورت نہیں ، یا پھر مسلمانوں کی نظر میں منکر حدیث بنیں ، اس سے بچنے کے لئے انکے ذہن نے اسکا پہلا حل تو یہ ڈھونڈا کہ قرآن اور احادیث کے تعلق کو فنکاری کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابل لا کر احادیث کی ضرورت اور عدم ضرورت کے سوالات پیدا کئے جائیں، میری اس بات کی تصدیق مرزا صاحب کا یہ ارشاد کر رہا ہے۔ ’’کیاآ نحضرت ؐ کی ان لوگوں کو وصیت تھی کہ میرے بعد بخاری کو ماننا؟ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت تو یہ تھی کہ کتاب اللہ کافی ہے۔ ہم قرآن کے بارے میں پوچھے جائیں گے نہ کہ زید اور بکر کے جمع کردہ سرمایہ کے بارے میں یہ سوال ہم سے نہ ہو گا کہ تم صحاح سِتہ وغیرہ پر ایمان کیوں نہ لائے۔ پوچھا تو یہ جائیگا کہ قرآن پر ایمان کیوں نہ لائے۔
بحث کے قواعد ہمیشہ یاد رکھو۔ اول قواعد مرتب ہوں ، پھر سوال مرتب ہوں، کتاب اللہ کو مقدم رکھا جائے۔ احادیث ان کے (کن کے ؟۔ناقل)اقرار کے نموجب خود ظنیات ہیں۔ یعنی صدق اور کذب کا ان میں احتمال ہے۔
اسکے یہ معنی ہیں کہ ممکن ہے سچ ہو ،اور ممکن ہے کہ جھوٹ ہو۔ لیکن قرآن شریف ایسے احتمالات سے پاک ہے۔آنحضرت ؐ کی زندگی قرآن شریف تک ہی ہے۔ پھر آپ فوت ہو گئے۔ اگر یہ احادیث صحیح ہوتیں اور مدار ان پر ہوتا تو آنحضرت ؐ فرما جاتے کہ میں نے حدیث جمع نہیں کیں۔ فلاں فلاں آوے گا تو جمع کریگا تم اُن کو ماننا‘‘۔ ملفوظات /ج ۴ / ص ۱۵۱۔ چونکہ مرزا صاحب کو یقین تھا کہ یہ عذر کافی نہیں ہو گا دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا کہ احادیث کے ایک بہت بڑے حصہ کے متعلق شکوک ذہنوں میں ڈالنا شروع کر رہے ہیں :

No comments:

Post a Comment

بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔