القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Friday, August 14, 2009

سوانح حیات شیخ راحیل رحمۃ اللہ

ابوجان( مرحوم) نے مرزا غلام قادیانی کی تمام تحریروں کا مطالعہ کیا اور تنظیم کے اصلی روپ کو بہت قریب سے دیکھا ذوالفقار علی(لندن)۔

بلاشبہ اﷲ عزوجل ہی تمام تعریف کے لائق ہے اور اﷲ عزوجل نے ہی انسانوں کے دلوں کو اس طرح بنایا کہ وہ انوار الٰہی کے فیضان کی استطاعت رکھتے ہیں اور بعض انسانوں پر اﷲ پاک اپنا خاص کرم کرتے ہیں اور ان کو کسی نہ کسی صورت میں دینی کا کام کرنے کی ہمت عطا فرماتے ہیں۔ شیخ راحیل احمد ( مرحوم) بھی ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک تھے جن پر خدائے بزرگ برتر نے اپنا خاص کرم کیا اور اُنہیں منکران ختم نبوت سے نکال کر سیدھے راستے پر گامزن کیا اور پھر ان کو ہمت عطا فرمائی کہ وہ اپنی آخری سانسوں تک قادیانی جماعت میں پھنسے ہوئے لوگوں کو سیدھی راہ پر واپس لانے کی جستجو میں لگے رہے۔

شیخ راحیل احمد ( مرحوم) رشتے کے اعتبار سے میرے سسر تھے مگر در حقیقت وہ میرے لئے ایک باپ کی حیثیت اختیار کر گئے تھے اور میری شادی کے بعد سے آخرتک اُنہوں نے مجھے صرف اپنا بیٹا ہی مانا اور جانا ان کی موت کے بعد آج مجھے محسوس ہوا ہے کہ میں دوسری بار یتیم ہوا ہوں ایک دفعہ تب جب میرے والد حقیقی اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اب جب شیخ راحیل احمدؒ مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے۔ والد کا ساےہ شفقت سبھی کے لئے نعمت عظمیٰ ہے لیکن ان کو اس نعمت کے چھن جانے کا احساس سب سے زیادہ ہوتا ہے جن کے باپ شیخ راحیل احمد ( مرحوم) کی طرح ہوتے ہیں باقی ےہ ہے کہ دنیا سے کوچ کا ےہ سفر ہر ایک کو درپیش ہے بس دُعا ےہی ہے کہ اﷲتعالیٰ ان کو ابدی سکون اور عیش عشرت کے انعامات و کرامات نصیب فرمائے اور ہم سب کو صبر عطا فرمائے ( آمین)۔ شیخ صاحب ( مرحوم) سے مجھے ہمیشہ وہی پیار ، وہی سلوک اور وہی شفقت ملی جو کہ مجھے میرے حقیقی باپ سے ملی ےہ میرے لئے ممکن نہیں کہ اپنے دُکھ کا پوری طرح اظہار اپنے قلم سے کرسکوں اور ان کی شخصیت کے تمام پہلووں کو قلم بند کرسکوں مگر اپنے تئیں ایک کوشش کر رہا ہوں تا کہ جتنا میں نے ان سے سیکھا اور جتنا میں ان کو دیکھا اور جانا وہ ان کے چاہنے والوں کو بتاسکوں۔

میری شادی جو لائی 2004ءمیں ان کی صاحبزادی سے ہوئی، 2004ءسے 2009، کا تعلق اتنا بہت بڑا عرصہ تو نہیں مگر ےہ ان کی شخصیت کا ایک کمال تھا جو اتنے چھوٹے سے عرصے میں اُنہوں نے مجھے اپنے اتنے قریب کردیا کہ مجھ پر ان کی شخصیت کے پہلو ایک کتاب کی طرح عیاں ہوئے۔ 21جولائی 1947ءکو انڈیا میں احمدیوں کے گھر پیدا ہوئے اور پھر چھوٹی سی عمر میں اپنے خاندان کے ساتھ ربوہ ( جناب نگر) میں آکر آباد ہوگئے وہیں پر اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی اور میٹرک کیا اس کے بعد کچھ عرصہ کے لئے ملتان میں بھی رہے اور پھر 1964ءکو کراچی آئے۔ےہیں پر اپنی باقی تعلیم مکمل کی اور بی- اے کیا اور پاکستان نیوی کے ساتھ وابستہ ہوگئے۔ ابو جان (مرحوم) 1980ءتک کراچی میں رہے اسی دوران اُنہوں نے گجرات کے ایک قصبہ کنجاہ سے ایک نیک خاتون سے شادی کی جو اﷲ کے فضل سے تاحیات ہیں اس لحاظ سے ابو جان بہت خوش قسمت رہے کہ اُنہیں ایک بہت سادہ، وفاشعار، نیک سیرت اور معاملہ فہم بیوی ملیں جس نے واقعتا ابوجان کی زندگی کو بہت خوشگوار اور گھر کو جنت کا نمونہ بنادیا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ابوجان کے شانہ بشانہ شامل رہیں اور اُنہیں اپنی روایات سے ہر ممکنہ طور پر وابستہ رکھا۔ اﷲتعالیٰ ان کو ابوجان (مرحوم) کی جدائی میں صبر مسلم عطا فرمائے اور اپنے بچوں کے سر پر ان کی ممتا کی ٹھنڈی چھاوں ہمیشہ برقرار رکھے ( آمین)۔

اس کے بعد شیخ صاحب جرمنی آگئے اور بعذازاں اپنے پورے خاندان کو ےہیں بلوالیا ۔ اپنے پسمندگان میں 5بیٹیاں اور ایک نہایت سلیقہ شعار اور تابعدار بیٹا شیخ سہیل احمد چھوڑ گئے۔ ان کی شخصیت کا خاص پہلو یا ان کی ذات کا سب سے بڑا سرماےہ جس پر نہ صرف خاندان والوں بلکہ ان کے تمام جاننے والوں کو بھی ہے وہ ان کاقادیانیوں کے ساتھ عملی اور قلمی دعوت ہے اپنی تمام تر جسمانی بیماریوں اور تکالیف کے ساتھ جس طریقہ سے اُنہوں نے اپنی آخری سانس تک اس دعوت کو جاری رکھا اور مرزا غلام قادیانی کی جھوٹی نبوت کے دعووں کو بے نقاب کیا وہ بلاشبہ رب ذوالجلال کا ان کی ذات پر بہت بڑا احسان اور انعام ہے۔

وہ ہمیشہ کہتے کہ بیٹا اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر بہت بڑا کرم کیا، مجھے اندھیروں سے دور کیا اور صراط مستقیم پر آنے کی ہمت دی اس لئے ےہ اب میری ذمہ داری ہے کہ اپنے پروردگار کی اس نعمت کا شکر ادا کروں اور اپنی طرف سے ہر ممکن سعی کروں کہ جو لوگ اب بھی شرک کے ان اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں ان کو صراط مستقیم پر لانے کی کوشش کروں اور مرزا غلام قادیانی کے جھوٹے نبوت کے دعوے کو جھوٹا ثابت کروں اور ےہی میری رب سے دُعا ہے اور التجا ہے کہ مجھے وہ اتنی ہمت دے اور مہلت دے اور پروردگار نے ان کی اس دُعا کو قبول فرمایا اور ابو جان نہ صرف قلمی طور پر ان کو چیلنج کیا بلکہ پروردگار نے ان کی وساطت سے کئی بھٹکے ہووں کو سیدھا راستہ بھی دکھایا ( سبحان اﷲ) ابو جان خود فرماتے ہیں کہ باوجود ربوہ کے ماحول میں پڑھنے کے جہاں پر مرزا خاندان کا جادو سر پر چڑھ کر بولتا ہے اور ان پر اعتراضات اول تو اُٹھانے کی کوشش نہیں کرتا اگر کوئی جراءت کر کے کچھ کہہ بھی دے تو تاویلات ایسی کہ منہ بند ہی کرنا پڑتاہے اور لوگ کھل کر بات نہیں کرپاتے جہاں پر بچوں کے دماغ میں اسکول سے ہی ےہ بٹھا دیا جاتا ہے کہ تم لوگ بہتر ہو دوسروں سے افضل ہو اور مہدی…. کے ماننے والے ہو اور ان کو تاعمر اندھیروں میں رکھا جاتا ہے ان حالات میں اپنے پروردگار پاک نے مجھ ناچیز پر اتنا بڑا احسان کیا اور مجھے اسلام کی ابدی اور سچی روشنی عطا فرمائی۔

ابو جان (مرحوم) نے اسلام کی طرف آنے کا واقعہ بتاتے ہوئے فرمایا کہ دوسرے قادیانیوں کی طرح عمر کے بڑے حصے تک میں اس گرہ اور اس کے خرافات کی اندھا دھند تقلید کرتا رہا لیکن جب میں نے جرمنی تنظیم کے اعلیٰ عہدوں پر کام کرنا شروع کیا اور خلیفہ صاحب کی زندگی اور اس کے کارناموں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو مجھ بہت سی حقیقتیں آشکار ہونے لگیں میں نے خلیفہ کی ذات کے اندر قول و فعل میں بہت بڑا تضاد دیکھا جس کی وجہ سے میرے دل نے مجھے مزید تحقیق و جستجو میں ڈال دیا۔ اس عرصے میں میں نے مرزا غلام قادیانی کی تمام تحریروں کا مطالعہ کیا اور تنظیم کے اصلی روپ کو بہت قریب سے دیکھا مرزا غلام قادیانی کی تحریروں میں جب میں نے اتنا بڑا تضاد دیکھا تو فوراً میں اس نتیجے پر پہنچ گیا کہ قادیانیت ایک گمراہ کن تحریک ہے اور مرزا غلام قادیانی ایک کاذب ہے اور چھوٹو نبوت کا دعویدار ہے کیونکہ ایک نبی کی تحریر ایسی ہو نہیں سکتی ایک نبی کا کردار ایسا ہو نہیں سکتا اور آسمانی الفاظ ایسے ہو نہیں سکتے۔

حالانکہ اپنے پیدائشی مذہب سے علیحدہ ہونا بہت ہی کھٹن کام ہے لیکن اس کے باوجود کیونکہ سچائی ابوجان مرحوم کے اندر کہیں نہ کہیں موجود تھی جسے صرف بھڑکانے کی ضرورت تھی اور رب کریم نے ان پر اپنا کرم کرنا تھا اس لئے وہ ایک خوش نصیب انسان ہے۔

ابو جان نے مجھے مزید بتایا کہ اگر چہ ان کے دل نے اسلام کی سچائی کو پہلے سے ہی قبول کرلیا تھا لیکن مزید تحقیق وجستجو اور مرزا غلام قادیانی کی اصل تحریروں کی دسترس اور اس کے مطالعہ کی وجہ سے وہ قادیانیوں کے لبادہ اوڑھے رہے اور بالا آخر 22اگست 2003ءکو اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ اپنے اعلان سے قبل اُنہوں نے ےہ بات اپنے بیوی وار بچوں کے سامنے رکھی اپنی تحقیق کی ایک ایک چیز ان کے سامنے رکھی ےہاں پر الحمداﷲ رب کریم نے ان کو مایوس نہیں کیا کیونکہ ان کے بچے جانتے تھے کہ ان کا باپ ایک سچا اور کھرا انسان ہے اور وہ اپنے بچوں کی برائی کبھی بھی نہیں چاہے گا اس لئے اُنہوں بلاتامل اپنے باپ کی بات پر لبیک کہا اور ان کے ساتھ اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئے۔ ےہ حقیقت ہے کہ اسلام کی اور ایمان کی دولت صرف ان لوگوں کی ملتی ہے اول جن پر خدائے بزرگ برتر اپنی مہربانی فرمانے کا ارادہ فرماتے ہیں اور دوسرا جن کے دل سچے ہوں اور وہ روشن ضمیر ہوں۔میں ابو جان کی دوسری خوبیوں میں جن چیز سے بہت زیادہ متاثر ہوا وہ ان کی جوانمردی ان کی ہمت تھی۔

ان کے سب جاننے والے لوگوں کو علم ہوگا کہ اُنہوں نے اپنی زندگی کے آخری چند سال بہت بڑی جسمانی تکالیف کے ساتھ گزارے ۔ میں نے خود اپنی ان آنکھوں سے ان تمام تکالیف اور مصائب کو دیکھا ہے شروع شروع میں میں ہمیشہ حیران ہوتا تھا کہ باوجود اتنی تکالیف کے میں نے اس شخص کے منہ سے کبھی کوئی شکوہ شکایت نہیں سنی …….. مجھ پر ان کی ہمت اور حوصلے کی حقیقت آشکار ہوئی۔ وہ کبھی بھی کسی کو اپنی تکالیف نہیں بتاتے تھے اور اپنی باتوں سے کبھی بھی احساس تک ہیں ہوتنے دیتے تھے کہ وہ کس قدر تکلیف میں ہے۔

اپنی وفات سے کچھ ماہ قبل جب وہ ایک بار ایمرجنسی میں ہسپتال داخل ہوئے تو ان کے ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ شیخ صاحب کچھ دن کے مہمان ہیں جس کی وجہ سے سب گھر والے پریشان ہوئے اور میں بھی اپنے بچوں کے ہمرہ لندن سے جرمنی ان کو دیکھنے کے لئے چلا گیا جب میں نے ان سے ملاقات کی اور بات چیت کی تو یقین کریں کہ مجھے کسی طریقے سے بھی ےہ محسوس نہ ہوا کہ وہ اس قدر بیمار ہیں ان کا وہی پرتکلف انداز گفتگو اور ان کی ہمت جس کی وجہ سے دیکھنے والے ہمیشہ دھوکا کھا جاتے تھے۔

ابو جان اتنی تکالیف کے باوجودحضرت عبدالرحمن باوا صاحب مدظلہ اور ان کے فرزند حضرت مولانا سہیل باوا صاحب کے بلانے پر کئی مرتبہ گاڑی پر بھی لندن آئے مجھے ہمیشہ ان کی ہمت کی داد دینا پڑتی کئی بات ایکسیڈنٹ ہوئے اور گھر والوں نے بھی اجازت نہ دی مگر پھر بھی اپنے دین کے لئے …. کی خاطر اور بعض دفعہ ہماری محبت میں کسی چیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہمیشہ تشریف لے آتے۔

مجھے ہمیشہ کہتے تھے کہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنے لاکھوں کروڑوں بندوں سے بہتر رکھا ہوا وہ کیوں نہ ان کا شکر ادا کریں۔ میں جب کبھی مشکل کا شکار ہوتا یا کوئی اہل خانہ کا دوسرا فرد تو ہمیشہ ان کی ذات ہماری ڈھارس بندھاتی اور ہمیں حوصلہ و ہمت دیتے یقین کریں وہ اس طریقے سے ےہ کام کرتے کہ آپ کی آدھی سی زیادہ مشکل یا تکلیف ان سے بات کرنے کے بعد ختم ہوجاتی ۔ مجھے آج ان کا پنجابی کا وہ جملہ یاد آرہا ہے جو اُنہوں نے میری ایک دفعہ بہت بڑی پریشانی کے وقت کہا کہ ……………. ۔

جب میں بارات لے کر ان کے گھر جرمنی جانے والا تھا تو کسی بدنیت کی شکایت پر جرمن ایمبیسی نے مجھے ویزہ دینے سے انکار کردیا ےہ میرے لئے اور ان کے اہل خانہ کے لئے بہت بڑی تکلیف وہ بات تھی مگر وہ واحد شخص تھے ذرا کبھی نہ گھبرائے اور جرمنی میں عدالتوں میں اور انتظامےہ کو اس بات پرقائل کر کے چھوڑا کہ ےہ ہمارے خلاف جھوٹی سازش تھی کیونکہ وہ سچ کی خاطر ہر جگہ پر ڈٹ جاتے تھے وہ کہتے تھے کہ بیٹا علی ہمارے دل میں کوئی چور نہیں ہے ہم سچے ہیں اس لئے ہمیں کسی بات کا ڈر نہیں ہونا چاہئے انشاءاﷲ جیت ہماری ہو گی اور وہی ہوا جس کا اُنہیں یقین تھا۔ ےہ ایک چھوٹی سی مثال تھی لیکن ان کی زند گی اس یتیم کی کئی مثالوں سے بھری پڑی ہے شادی کے بعد ہم میاں بیوی اور بعد میں بچوں کے ساتھ جب بھی ان کو ملنے جاتے چاہے صبح کی فلائٹ ہوتی یا شام ان کی طبیعت کیسی ہی کیوں نہ ہو ہمیشہ ہمیں لینے ائیر پورٹ پر پہنچ جاتے اگر ہم کہہ بھی دیتے کہ ابو جان آپ کی طبیعت اتنی خراب ہے آپ کیوں آئے ہیں تو کہتے بیٹا مجھے اپنی تکلیفوں سے زیادہ پیار اپنے بچوں اور ان کی تکلیفوں سے ہے۔

ابو جان (مرحوم) کی طبیعت میں ہمیشہ صاف گوئی سے کام لینے اور انصاف پسندی کی عادت بدرجہ اتم موجود تھی ہمیشہ صاف ، سیدھی اور بالکل نڈر ہو کر بات کرنے والے انسان تھے چاہے سامنے والا کوئی بھی ہو وہ ذرا بھی نہ گھبراتے، چاہے وہ کسی کو بری لگتی یا اچھی چاہے وہ گھریلو محفل ہوتی یا دوست احباب کی ہمیشہ صاف گوئی سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے۔

کئی دفعہ گھر کے معاملات میں اور کئی دفعہ باہر دوست احباب اور دینی محفلوں میں میں نے ان کی اس عادت کو دیکھا جب میں ان سے کہتا کہ ابو جان اس طرح کوئی بھی ناراض ہوسکتا ہے تو فوراً کہتے بیٹا سچ سچ ہوتا ہے اور انسان کو ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا چاہئے کہ اسی میں آخر میں سب کا فائدہ ہے۔ مجھے ہمیشہ کہتے کہ بیٹے اچھا باپ وہ ہوتا ہے جو اپنے بچوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرے نہ کہ اس پر پردہ ڈالے اور اگر اﷲتعالیٰ نے مجھے کسی معاملہ میں منصف بنادیا ہے تو ےہ میرا فرض ہے کہ ہر ممکن کوشش کروں کہ فیصلہ عدل و انصاف کے ساتھ کرسکوں۔

چاہے وہ ان کے گھریلو معاملات ہوں یا باہر کے میرے خیال کے مطابق وہ ایک معاملہ فہم انسان تھے اور ان کی کوشش ہوتی کہ معاملہ احسن طریقے سے فوراً حل ہوجائے اور بات آگے نہ بڑھے اور جو بات جس کے متعلق ہوتی یا جس کو جو کچھ بھی کہنا ہوتا ہمیشہ اس کے منہ پر بات کو کہتے جس سے بات کا ادھر اُدھر ہوجانے کا خدشہ ختم ہوجاتا تھا اور کوئی بھی شخص ان کے بارے غلط بات یا غلط بیانی سے کام نہیں لے سکتا تھا اسی وجہ سے گھر والے ہمیشہ ان کے فیصلے کو بڑے آرام وسکون سے تسلیم کرلیتے تھے۔

ابو جان اپنی علمی قابلیت طرز بیاں خود اعتمادی اور مزاحےہ حس رکھنے کی وجہ ہر قسم کی محفل میں چھا جانے والی شخصیت تھے۔ اکثر اوقات جب قادیانیوں کو پتہ چلتا کہ شیخ صاحب بھی تشریف لانے والے ہیں تو وہ فوراً بھاگ جاتے تھے ، میں خود اس چیز کا چشم دید گواہ ہوں۔ ایک دفعہ لند ن مرکز ختم نبوت اکیڈمی کے مرکزی امیر حضرت مولانا سہیل باوا جی نے Romforderd لندن میں قادیانیوں کے ساتھ بحث و مباحثے کے ایک چیلنج کو قبول کیا اتفاق سے ابو جان ہمارے پاس ہی آئے ہوئے تھے لیکن اُنہوں نے کہا کہ ان لوگوں کو پتہ نہ چلے کہ میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ ہوں۔ جب وہاں پر پہنچے تو ان لوگوں کو کسی نہ کسی طرح پتہ چل گیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ابو جان کی بچوں سے محبت اور انسیت بے مثال تھی اپنے خاندان کے بچوں کے وہ Big Papa اور Hero تھے اس کی وجہ ےہ تھی کہ وہ ہمیشہ بچوں کی بات پوری توجہ سے سنتے، ان کے ساتھ گفتگو کرتے اور ان کے ساتھ گھل مل جاتے تھے۔ ہمارے گھر میں جب بھی وہ جرمنی سے فون کرتے تو ہمیشہ پہلے بچوں کا پوچھتے ان سے بات بھی کرتے اور کبھی کبھی ان کی بات بچوں سے شروع ہو کر بچوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے ختم ہوجاتی میرے بیٹے آبان علی کے بارے میں کہتے کہ ےہ آدھا علی کا ہے آدھا ماں کا اور پورے کا پورا میرا ہے ہمیشہ کہتے کہ اگر بچوں کو پیار اور وقت دوگے تو وہ تمہارے بنیں گے۔

ابو جان ایک ادبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہنس مکھ، زندہ دل اور مسکراہٹیں بکھیرنے والے شخص تھے ےہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کے ساتھ ان کی محفل ہوتی اور وہ آپ کے چہرے پر مسکراہٹیں نہ بکھیرتے۔ اُنہیں دوسروں کو خوش کرنے میں مزہ آتا تھا۔ ایک دفعہ میں ابوجان کے ساتھ ٹرین میں ایک مذہبی محفل میں شرکت کے لئے لندن سٹی میں جارہا تھا ہمارے ساتھ حضرت عبدالرحمن باوا صاحب مدظلہ اور دو تین بزرگ ہستیاں بھی ساتھ تھیں مجھے اچھی طرح یاد ہے کے ابوجان نے کس طرح اپنی باتوں سے سب کو لطف اندوز کیا او ر حضرت عبدالرحمن باوا صاحب سمیت دوسرے بزرگ بھی ان کی باتوں پر مسکرارہے تھے اور ان سب کے چہرے قابل دید تھے۔

اکثر اوقات جب وہ ہسپتال داخل ہوتے تو ڈاکٹر اور دوسرا عملہ ان کی طبیعت اور حالت دیکھ کر پریشان ہوجاتے مگر ابوجان اس حالت میں بھی ان سے ایسی بات کرتے کہ وہ سب مسکرانے پر مجبور ہوجاتے اور پھر مجھے ٹیلیفون پر بناتے کہ اُنہوں نے اپنے ڈاکٹرسے بات کی تو وہ ہنسنے کے ساتھ ساتھ حیران بھی ہوا کہ اس حالت میں بھی مجھے مذاق سوجھتا ہے

ادبی اعتبار سے ابوجان کی شخصیت ےہاں کے مذہبی حلقہ احباب میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ میرے نزدیک ان کی تحریریں اپنے طرز بیاں کے اعتبار سے اور اپنے موضع بیان کے اعتبار سے ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ کیونکہ اُنہوں نے جو مرزا صاحب کو کھلے خطوط کا سلسلہ شروع کیا اور جو مرزا غلام احمد کا عالم برزخ میں انٹرویو کیا وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک نیا طرز بیان ہے جو اُنہوں نے شروع کیا اور اُنہوں نے جو کچھ لکھا وہ اپنے رب کی رضا کے لئے ختم نبوت کی سچائی اور منکران ختم نبوت کو غلط اور جھوٹا ثابت کرنے کے لئے لکھا۔

خاص طور پر ان کے آخری مضامین جو اُنہوں نے آخری پانچ چھ ماہ میں لکھے وہ اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ وہ بے حد بیمار تھے اور ان کی محبت دو قدم چلنے کی بھی اجازت نہ دے رہی تھی اکسیجن کو ساتھ رکھنا پڑتا تھا کیونکہ بار بار سانس اٹک جاتا تھا مگر ان حالات میں بھی اُنہوں نے لکھنا ختم نہیں کیا۔ ہسپتال کے اندر ہمیشہ اپنا لیپ ٹاپساتھ رکھتے

اور ڈاکٹر اور گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود لکھنے سے باز نہ آتے آخری دفعہ جب میں ان سے ملنے ہسپتال پہنچا تو کہنے لگے کہ ےہ سب لوگ چاہتے ہیں کہ میں لکھنا بند کردوں LapTop گھر بھیج دوں مگر میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جب تک میری آخری سانس نکل نہیں جاتی تب تک میں لکھتا رہوں گا۔

ان کی تحریر بڑی سادہ ، خوشگوار اور آسان ہوتی تھی کیونکہ ان کے خیال کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ جو کچھ وہ لکھیں تمام لوگ بھی اس کو پڑھ سکیں اور سمجھ سکیں دوسرا ےہ کہ میں ایسی چیز نہیں لکھنا چاہتا یا ایسی زبان استعمال نہیں کرنا چاہتا جس سے ان کے جذبات مجروح ہوں اور مضمون کو پڑھنے کی بجائے دور پھینک دیں۔ وہ ہمیشہ شائستہ ، مہذب لہجہ اختیار کرتے تا کہ قادیانی آرام سے انکی پوری تحریر پڑھ سکیں اور پھر اس پر غور و فکر کرسکیں۔

اس سلسلہ میں اُنہوں نے مجھ سے فرمایا کہ قادیانیت ایک ایسا جال ہے جسے صرف اور صرف اخلاق اور حسن سلوک سے توڑا جاسکتا ہے اور ےہ ضروری ہے کہ ایک عام قادیانی جسے حقائق سے بہت دور رکھا جاتا ہے اس کو پیار و محبت کی زبان سے سمجھایا جائے تو وہ بہت جلد اس کو سمجھ جائے گا۔

بنیادی طور پر ابو جان مرحوم مرزا غلام احمد اور دوسرے خلیفوں کی تحریروں کو ہی لے کر …. کرتے تھے وہ قرآن و سنت و حدیث کی روشنی میں اس کا موازنہ لوگوں کے سامنے پیش کرتے اور ےہ بتانے کی کوشش کرتے کہ مرزا اور اس کے جانشینوں کی تحریروں اور قرآن پاک اور حدیث سے کتنی متضاد رکھتی ہیں مجھے ہمیشہ کہتے میں اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھتا میں تو صرف ان کی اپنی تحریروں کو ہی لے کر …. کرتا ہوں۔ ابو جان مرحوم کے ادبی سفر میں جن لوگوں نے ان کا بھر پور ساتھ دیا اُن کا ذکر نہ کرنا ان کے ساتھ سخت زیادتی ہوگی۔

حضرت عبدالرحمن باوا صاحب او ر مولانا سہیل باوا صاحب اُنہوں نے شیخ صاحب مرحوم کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا اور شیخ صاحب کے اندر والی کیفیات کو باہر نکالنے میں مدد دی۔ اُنہوں نے شیخ صاحب کو ہر موقع پر بہت نادر کتب ارسال کیں جن سے ابو جان مرحوم اپنی ادبی پیاس بجھاتے اور اپنے علم میں اضافہ کرتے۔

ابو جان مرحوم کے خطوط کو چھپوایا ان کو کتابوں کی زینت بنوایا اور ابو جان مرحوم کے کام کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلیا۔ ابو جان نے خود ان سے فرمایا کہ بیٹا یورپ کے اندر دونوں باپ بیٹا سب سے بڑھ کر کام کر رہے ہیں حضرت عبدالرحمن باوا صاحب او ر مولانا سہیل باوا صاحب کو اپنی طرف سے اور تمام اہل خانہ کی طرف سے ان کی خدمات کا تہہ دل سے شکرےہ ادا کرتا ہوں۔

ابو جان کو اپنی کتابوں سے بہت پیار تھا اپنی ذاتی لائبریری کے اندر ماشاءاﷲ 9ہزار سے زیادہ کتابوں کا ذخیرہ موجود ہے جو مختلف زبانوں میں اور مختلف موضاعات پر مشتمل ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ کتب قادیانیت اور احادیث پر مشتمل ہیں ، جب میں ان کی لائبریری کے بارے ان سے بات کرتا تو فرماتے کہ بیٹا میرے پاس چند ایسی کتب بھی موجود ہیں جواب بہت نایاب ہیں۔

میں جب بھی پاکستان سے واپس آرہا ہوتا یا لندن سے جرمنی جارہا ہوتا تو میں ان سے ضرور پوچھتا کہ ابو جان آپ کو کوئی چیز چاہیے تو بتائیں وہ ہمیشہ صرف اور صرف کتابوں کا تحفہ ہی لینا پسند فرماتے اور کہتے علی اگر لاسکتے ہو تو مجھے فلاں کتاب لادو اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں چاہئے یوں میں ان کے لئے پاکستان سے ےہاں سے ان کے لئے کتابیں لے جاتا تو وہ بہت خوش ہوتے۔

آج وہ ہم میں نہیں ہیں اس مضمون کو لکھتے ہوئے میرا دل رو رہا ہے اور دل کرتا ہے اُنہیں کہوں کہ ابو جان آج آپ کی بڑی یاد آرہی ہے مگر ہم سب اپنے پروردگار کے بنائے ہوئے اس قانون کے تابع ہیں ” ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے“۔ آج ان کا وقت بھی پورا ہوگیا اور وہ ہم سے رخصت ہوگئے ۔ میں اپنے پروردگار سے ان کے بلند درجات کے لئے دُعا گوہوں اﷲتعالیٰ ان کی بال بال کی مغفرت فرمائے اور اُنہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے (آمین) اور ہم وارثاگان کو صبر عظیم اور دین پر استقامت نصیب فرمائے آمین۔



ذوالفقار علی

(لندن)

اس مضمون کے لئے ہم الحق المبین کے شکر گزار ہیں

No comments:

Post a Comment

بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔