القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Monday, June 8, 2009

جھوٹ کی وہی ملمع کاری - حصہ ششم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

صحت کی بشارت نمبر۷:۔۲۰ ستمبر ۱۹۰۵ رویا۔دیکھا کہ میں بٹالہ کو جاتا ہوں، خیال آیا کہ نماز کا وقت تنگ ہے اس واسطے ایک مسجد میں گیا، جو کہ چھوٹی سی مسجد ہے، مسجد کے زینوں پر سے چڑھتے ہوئے مرزا خدا بخش صاحب کی آواز آئی۔ وہ تو کہیں چلے گئے۔ پھر جب میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ بڑے مرزا صاحب یعنی والد صاحب کا ایک پُرانا نوکر مرزا رحمت اللہ نام جو قریباً پچاس سال تک والد صاحب کی خدمت میں رہا تھا اور جس کو فوت ہوئے بھی قریباً چالیس سال ہوئے ہیں، وہاں موجود ہے اور غمگین سا ہے اور مسجد کے کنویں کی منڈیر پر محمد اسحٰق بیٹھا ہوا ہے،اور پیر محمد منظور بھی اس جگہ ہے۔اسحٰق نے مرزا رحمت اللہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ بڑے مرزاصاحب نے اس کی روٹی بند کردی ہے۔ اور یہ ارادہ کرتا تھا کہ چلا جائے۔اور خدا جانے کہاں جانا تھا۔ مگر منظور محمد نے اس کو رکھ لیا ہے کہ تجارت کر کے گذارہ کرینگے۔ ہمارے دل میں خیال آیا کہ معلوم نہیں مرزا صاحب نے کیوں روٹی بند کر دی ہے۔ بزرگوں کے کام پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔ پھر الہام ہوا انی انا الرحمٰنُ لا یخافَ لدَیّ المُرسلون۔قل اللہ ژُم ذَر ھم فیِ خَو ضھم یلعبون۔ فرمایا یہ ایک پُر معنی خواب ہے اور مولوی عبدالکریم صاحب کے متعلق معلوم ہوتی ہے۔ روٹی مدار حیات ہے کیونکہ خوراک کے ساتھ زندگی کا بقا ہے، روٹی کا بند ہونا اس دنیا سے فوت ہو جانا ہوتا ہے،سو بنظر اسباب ظاہری یہ سخت بیماری ایک موت کا پیغام ہے، لیکن روٹی پھر لگ گئی ہے، کیونکہ منظور محمد نے رحمت اللہ کو رکھ لیا ہے ۔ رحمت اللہ سے مراد خدا کی رحمت ہے، اور منظور محمد سے مراد وہ امر ہے جو محمدکو منظور ہے، وحی الٰہی میں میرا نام محمد بھی ہے، پس اس سے مراد مولوی صاحب کی صحت اور تندرستی ہے جس کے واسطے ہم دعائیں کرتے ہیں۔تجارت سے مراد دعا کرنا۔ خدا پر ایمان رکھنا۔ اس پر بھروسہ کرنا اور اعمال صالحہ کا بجا لانا۔ جیسا کہ قرآن شریف میں ہے۔یَا ایُّھا ا لذین اٰ منوا ھَل اَدَلّکُم علیٰ تجارَةِِ۔ غرض معمولی زندگی جو بغیر کسی عوض کے تھی وہ تو بند ہو چکی ہے، لیکن اب تجارتی زندگی باقی ہے، یعنی وہ زندگی جو دعاوں کا نتیجہ ہے ۔ اس لئے رحمت اللہ کو جاتے جاتے روک لیا ہے۔ تذکرہ/ص562۔563/بحوالہ الحکم ج۹،ن۳۳ / مورخہ24 ستمبر ۱۹۰۵ء/ص۱و۲۔
صحت کی بشارت نمبر۸:۔”حضرت مولوی عبد الکریم کی بیماری کا ذکر کرتے ہوئے ۹ ستمبر کو فرمایا کہ مجھے بہت ہی فکر تھا کہ بعض الہامات ان میں متوحش تھے۔ آج صبح بہت سوچنے کے بعد میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ بعض وقت ترتیب کے لحاظ سے الہامات آگے پیچھے ہو جاتے ہیں، چنانچہ ان الہامات کی ترتیب اللہ تعالےٰ نے میرے دل میں یہ ڈالی کہ ایسے الہامات جیسے اذا جاءافواج وسم من السماء اور کفن میں لپیٹا گیا اور ان المنایا لا تطیش سھا مھا ، یہ اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ قضا و قدر تو ایسی ہی تھی مگر اللہ تعالےٰ نے اپنے خاص فضل ا رحم سے رد بلا کر دیا“۔بحوالہ الحکم۱۰ستمبر۱۹۰۵ صفحہ۱۲، کالم ۳ و ۴۔
آپ کی خدمت میں مرزا جی کا ایک دعویٰ پہلے پیش کر چکا ہوں ، جس میں وہ صحت یابی کے بارے میں کسی الہام سے انکاری ہیں اور اب مرزا جی کی اپنی بیان کردہ ، مولوی عبد الکریم کی صحت کی آٹھ بشارتیں بھی آپ نے دیکھ لیں، اب آپ دوسری جگہ بھی مرزا صاحب کی تردید بھی پڑھ لیں، لکھتے ہیں،
بشارت سے انکار :۔”۱۱ ، اکتوبر ۱۹۰۵ کو ہمارے ایک مخلص دوست یعنی مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اسی بیماری کاربنکل یعنی سرطان سے فوت ہو گئے تھے۔ اُن کے لئے بھی میں نے دعا کی تھی مگر ایک بھی الہام اُن کے لئے تسلی بخش نہ تھا“۔ حقیقت الوحی/رخ، ج۲۲/ص ۳۳۹۔ اس ایک حوالے میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف کسی تسلی بخش الہام سے انکار کیا ہے ، اور اس انکار کی جو اصل حقیقت ہے اس سے آپکو اوپر دئے گئے آٹھ بشارتوں کے حوالوں نے واقف کرا دیا ہے ، ان بشارتوں کے آخری دو حوالہ جات جن میں مرزا غلام احمد قادیانی نے نہ صرف صحت کی بشارت دی ہے بلکہ خدا کی طرف سے یقین دلایا ہے کہ اللہ تعالےٰ نے رحم کر دیا ہے اوربلا (یعنی موت) کو رد کر دیا ہے، پڑھئے اور سر دھنئے کہ یہ کسی نبی کا کلام ہے یا تھالی کا بینگن ہے جدھر مرضی لڑھکتا پھرے ؟دوسری جو کسی قسم کی بشارت سے انکار ہے اس میں ایک اور بات بھی نظر آتی ہے کہ اپنے دعا کرنے کو بھی بڑے معمولی طریق سے پیش کیا ہے ، تاکہ پڑھنے والے کی توجہ مرزا صاحب کے قبولیت دعا کے دعووں کی طرف نہ جائے ۔لیکن جس وقت مولوی عبدالکریم موت کی بیماری میں مبتلا تھے کیا اس وقت بھی اسی طرح معمولی طور پر لکھا تھا کہ میں انکے لئے دعا کی تھی یا اسکو بڑے ڈرامائی انداز میں پبلک میں بڑی خاص دعاوں کے رنگ میں پیش کروایا گیا تھا؟آگے دئے گئے حوالہ جات کو مکرر پڑھئے اور پھربتئے کیا یہ صرف دعا تھی یا خاص دعائیں؟
دعا میں تکلیف:۔ اس دعا میں میں نے بہت تکلیف اٹھائی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے بشارت نازل کی اور عبداللہ سنوری والا خواب میں نے دیکھا جس سے نہایت درجہ غمناک دل کو تشفی ہوئی جو گذشتہ اخبار میں چھپ چکا ہے“ ۔ملفوظات/ ج ۸ /صفحہ ۷۔
بہت دعا:۔آجکل چونکہ مولوی عبد الکریم صاحب کے واسطے بہت دعا کی جاتی ہے اس واسطے امید ہے اللہ تعالےٰ انکو شفا دیگا۔ غلام قادر سے مراد خدائے قادر کی قدرت کی طرف اشارہ ہے۔ تذکرہ/ص۵۶۲/ بحوالہ الحکم ، ج۹ ،ن۳۳/مورخہ۲۴ستمبر۱۹۰۵ /ص ۱ کالم۳۔
دعاوں کے نتیجہ میں زندگی :۔غرض معمولی زندگی جو بغیر کسی عوض کے تھی وہ تو بند ہو چکی ہے، لیکن اب تجارتی زندگی باقی ہے، یعنی وہ زندگی جو دعاوں کا نتیجہ ہے ، اس لئے رحمت اللہ کو جاتے جاتے روک لیا ہے۔ تذکرہ/صفحہ۵۶۲۔۵۶۳/ الحکم ج ۹، ن۳۳ /مورخہ۲۴ستمبر۱۹۰۵/صفحہ۱۔۲
پوری پوری رات جاگ کر دعا:۔حضرت خلیفۃ اللہ (یعنی مرزا جی) کے لئے اُس دن سے کہ مولوی (عبد الکریم) صاحب پر عمل جراحی کیا گیا رات کا سونا قریباً حرام ہو گیا۔ باوصفیکہ چوٹ لگنے اور بہت سا خون نکل جانے کی وجہ سے حضرت اقدس کو تکلیف تھی اور دوران سر کی بیماری کی شکایت تھی، لیکن یہ کریم النفس وجود ساری رات رب رحیم کے حضور مولانا مولوی عبد الکریم صاحب کے لئے دعاوں میں لگا رہا۔ یہ ہمدردی اور ایثار ہر شخص میں نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالےٰ کے بر گزیدہ بندوں اور ماموروں ہی کی یہ شان ہے کہ وہ اپنی تکالیف کو بھی دوسروں کی تکلیف کے مقابلہ میں بھول جاتے ہیں اور نہ صرف بھول جاتے ہیں بلکہ قریب بہ موت پہنچ جاتے ہیں( کاش موت کے قریب پہنچنے کی بھی ایڈیٹر الحکم نے تشریح کر دی ہوتی کہ کس طرح اور کب اور کیوں پہنچے)۔ لیکن دوبارہ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ موت کے قریب تو پہنچے، لیکن نیچے کے کمرے سے اوپر چھت والے کمرہ تک نہ پہنچ سکے (حالانکہ مولوی عبدالکریم آخری سانس تک انکو پکارتے رہے اور مرنے سے پہلے صرف ایک نظر دیکھنے کی حسرت لئے ہوئے عالم جاودانی کو کوچ کر گئے مگر مرزا صاحب یہ تکلیف نہ اٹھا سکے کہ اپنے گھر کی چھت پر جا کر ایک مرتے ہوئے دوست، جانثار مرید، امام الصلوٰة وغیرہ وغیرہ کو اپنی ایک جھلک ہی دکھا دیتے؟۔ناقل )لیکن ہاں انکے دل میں کسی بندہ کے لئے خاص طور پر اضطراب اور قلق کا پیدا ہونا خود اس بندہ کی عظمت اور وقعت کو بھی ظاہر کرتا ہے ۔حضرت اقدس نصف شب سے آخر شب تک دعاوں میں مصروف رہے اور اس اثنا میں مولوی صاحب ممدوح کے دروازہ پر آکر حال بھی پوچھا۔( اس حال پوچھنے کی دوسری روایتوں و بیانات سے تصدیق نہیں ہوتی، ہاں حال پوچھواتے رہے ہیں دوسروں کے ذریعہ ۔ ناقل)۔ساری دنیا سوتی تھی، مگر خدا کا یہ جری جاگتا تھا اپنے لئے نہیں اپنی اولاد کے لئے نہیں، اپنے کسی ذاتی مقصد کے لئے صرف اس لئے کہ تا رحیم و کریم مولا کے حضور اپنے ایک مخلص کی شفا کے لئے دعا کرے۔ فرمایا میں نے ہر چند چاہا کہ دو چار منٹ کےلئے ہی سو جاوں مگر میں جانتا ہی نہیں کہ نیند کہاں چلی گئی“۔الحکم ج۹،ن ۳۱/۳۱ اگست۱۹۰۵/ ص۹۔ اور نہ صرف خاص دعائیں کرنے کی نوید سنا رہے تھے بلکہ انکی مقبولیت کا بھی یقین دلا دیا تھا۔ یہانتک کہ اس دعا کو اپنا نشان بھی قرار دینے والے تھے بلکہ تقریباً قرار دے چکے تھے، میں آپ سے ایسے ہی بات نہیں کر رہا بلکہ اس سے جماعت کی معرفت بھی بلند ہونےکی خوشخبریاں پھیلائی جا رہی تھیں،ایڈیٹر الحکم رقم طراز ہیں۔ ”مولوی عبدالکریم صاحب کے لئے جو دعائیں کی جاتی ہیں جب انکا کھلا کھلا اظہار ہوگا تو ہماری جماعت کی معرفت اور امید زیادہ ہو جائیگی“، الحکم ج ۹، ن ۳۴/ مورخہ ۳۰ ستمبر ۱۹۰۵۔ اور اسی اشاعت میں آگے لکھتے ہیں ۔”یہ امر بلا مبالغہ ہے کہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا اس بیماری سے جاں بر ہوجاناایک عظیم الشان نشان ہو گا۔ جو سچ مچ احیاءموتیٰ ہو گا۔ خدا کرے ہم اس کو بہت جلد دیکھیں“ الحکم ج۹، ن۳۴/۳۰ستمبر۱۹۰۵ئ/ص۱۲، کالم۳ ۔
اوپر بیان کئے ہوئے حوالے ثابت کر رہے ہیں کہ مرزا صاحب نے ایک ہی معاملے میں دو قسم کے الہامات پبلک کے سامنے رکھے۔ پہلی قسم میں،کتنے ہی حوالے جس میں مرزا جی مولوی صاحب کے آخری ایام میں ، انکے لئے صحت اور زندگی کی بشارتیں تھیں ہر چند روز بعد سناتے رہے ، اور دوسری قسم میں مولوی عبدالکریم کی وفات کے الہامات تھے مگر ان الہامات کی مولوی صاحب کی زندگی میں ہی تشریح کر دی کہ خدا نے اب زندگی کا پیغام دے دیا ہے۔ لیکن بعد میں مولوی عبدالکریم کی وفات کے بعد اسکی موت کے الہامات کا پنڈورہ اٹھا لیا اور مرزا جی نے صحت کی کسی بھی بشارت یا الہام سے انکار کیا ہے ، صاحب عقل لوگوں کے لئے کتنے پیغام دے رہے ہیں۔ میرا قارئین سے سوال ہے کہ کیا مرزا غلام احمد قادیانی کی ان باتوں سے یہ سوال سامنے نہیں آتے کہ؟

No comments:

Post a Comment

بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔