القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Monday, June 8, 2009

جھوٹ کی وہی ملمع کاری - حصہ چہارم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد مرحوم

کفن میں لپیٹا گیا۔ ”۹ ستمبر۱۹۰۵ ان المنایالا تطیش سھامھا۔کفن میں لپیٹا ہوا۔ فرمایا معلوم نہیں یہ الہامات کس کے متعلق ہیں“۔ بحوالہ الحکم، جلد ۹ ، نمبر ۳۳ ، صفحہ ۳ ، کالم ۲۔ اب مزے کی بات ہے کہ تذ کرہ میں(جسکا حوالہ اوپر دیا گیا ہے) تحریف کرتے ہوئے صرف کفن میں لپیٹا گیا، تک درج کیا ہے اور مرزا جی کی تشریح جو الحکم میں ہے، اسکو درج نہیں کیا۔ اسپر بھی میرے سوالات وہی ہیں جو اوپر دئے گئے ہیں ، دوسری بات یہ ایسے گول مول الہامات ہیں ،کہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جس پر، جہاں پر، جس وقت ( مرزا جی کی وفات کی بعد بھی)،چسپاں کئے جا سکتے ہیں، یہ وہی بات ہے کہ میں کہہ دوں کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ ” سردی کی لہر چل رہی ہے ، اس سردی کی شدت کی وجہ سے زکام ٹل نہیں سکتا، اور ناک صاف کرتا دیکھا گیا“، اب سردی سے کئی بیمار ہونگے اور کئیوں کے ناک بہیں گے ، اب جس پر مرضی ہے چسپاں کر دوں اور کہہ دوں کہ دیکھو جی، میرا الہام کیسی صفائی سے پورا ہوا ہے،اگر آپ کا یہ فرمان ہے کہ آخر فوت تو ہوئے نا مولوی صاحب، تو یہ مت بھولیں کہ مرزا جی نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ان کے والد ایک حاذق اور مشہور طبیب تھے جو والیان ریاست کے علاج بھی کرتے تھے اور مرزا جی نے طب ان سے پڑھی تھی،اس وجہ سے انکو بیماریوں اور انکے نتائج کا علم تھا، اور اس زمانے میں کاربنکل کا مریض کم ہی صحت یاب ہوتا تھا اور آگے ، مرزا جی کے صحت یابی کے کسی الہام سے انکار کے باب میں مرزا جی کی اپنی تحریر کے حوالے سے ثابت ہو گا کہ مرزا جی کو پتہ تھا کہ کاربنکل کا مریض مشکل سے ہی بچتا ہے، اور مرزا جی کو مولوی عبد الکریم صاحب کی لمحہ بہ لمحہ کی حالت کا علم تھا ، اور اس وجہ سے یقیناً مرزا جی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ اب مشکل سے ہی بچیں گے، اس لئے اب وقت ہے کہ الہامات تیار کر لو تا وقت پر کام آئیں اور سند رہیں۔دوسری طرف احباب کو انکی صحت کی خوش خبریاں دی جا رہی تھیں، اس طرح مرزا جی نے اپنے طریقہ کار کے مطابق دونوں سائڈ محفوظ کر لیں کہ اگرخدا تعالےٰ کے رحم سے صحت ہو جائے تو اپنے رویا پیش کر دئے جائیں اور دنیا میں اپنی دعاوں کی قبولیت کا ڈھنڈورا پیٹ کر مزید مال اکٹھا کرنےکا موقع محفوظ رہے، اور جیسا کہ مرزا صاحب کو علم طب جاننے کی وجہ سے اندازہ تھا کہ اگرمولوی عبدالکریم اگلے جہان کو سدھاریں تو یہ الہامات پیش کر دئے جائیں۔یعنی چت بھی اپنی اور پت بھی اپنی۔
اُس نے اچھا ہونا ہی نہ تھا۔ یہ الہام اس سے پہلے کم از کم بیماری کے دنوں میں یا موت تک کہیں نظر نہیں آتا، اور پہلی بار تتمہ حقیقت الوحی میں مولوی صاحب کی وفات کے کافی عرصہ بعد شائع ہوا ہے۔ ویسے بھی مرزا جی نے جیسے لیکھرام کے بارے میں بعض دعوے اسکی موت کے بعد کئے ، اگر ایک یہ دعویٰ بھی کر لیا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟
اب میں قبل اس کے کہ مرزا جی کے ان ارشادات کو پیش کروں جو مولوی عبدالکریم صاحب کی صحت یا بی کے بارے میں تھے ، تتمہ حقیقت الوحی سے ایک اقتباس آپکی خدمت میں پیش کرنا چاہونگا، جس میں مرزا جی نے صحت یابی کے بارے میں کسی الہام وغیرہ سے انکار کیا ہے ، کیونکہ میری خواہش ہے کہ جہاں تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ اور ہر پہلو کے متعلق مواداحمدیوں کے سامنے پیش کروں تاکہ وہ کسی نتیجہ پر آسانی سے پہنچیں اور سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کر سکیں ، شرط صرف حوصلے اورغیر جذباتی ہو کر پڑھنے کی ہے مرزا جی لکھتے ہیں،
”یاد رہے کہ میرے نشانوں کو سنکر مولوی ثناءاللہ صاحب کی عادت ہے کہ ابو جہلی مادہ کے جوش سے انکار کے لئے کچے حیلے پیش کیا کرتے ہیں چنانچہ اس جگہ بھی انہوں نے یہی عادت دکھلائی اور محض افتراءکے طور پر اپنے پرچہ اہلدیث ،۸ فروری ۱۹۰۷ میں میری نسبت سے لکھدیا ہے کہ مولوی عبدالکریم کے صحت یاب ہونے کی نسبت جو انکو الہام ہوا تھا کہ وہ ضرور صحت یاب ہو جائیگا مگر آخر وہ فوت ہو گیا، اس افتراءکا ہم کیا جواب دیں بُجز اسکے کہ لعنت اللہ علی الکاذبین۔ مولوی ثناءاللہ صاحب ہمیں بتا دیں کہ اگر مولوی عبدالکریم صاحب مر حوم کے صحت یاب ہونے کی نسبت الہام مذکورہ بالا ہو چکا ہے تو پھر یہ الہامات مندرجہ ذیل جو پرچہ اخبار بدر اور الحکم میں شائع ہو چکے ہیں کس کی نسبت تھے۔ یعنی کفن میں لپیٹا گیا۔ 47 سال کی عمر۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس نے اچھا ہونا ہی نہیں تھا۔ ان المنایا لا تطیش سہامہا یعنی موتوں کے تیر ٹل نہیں سکتے۔واضح ہو کہ یہ سب الہام مولوی عبد الکریم صاحب کی نسبت تھے۔ ہاں ایک خواب میں انکو دیکھا تھا کہ گویا وہ صحت یاب ہیں مگر خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں اور تعبیر کی کتابوں کو دیکھ لو خوابوں کی تعبیر میں کبھی موت سے مراد صحت اور کبھی صحت سے مُراد موت ہوتی ہے اور کئی مرتبہ خواب میں ایک شخص کی موت دیکھی جاتی ہے اور اسکی تعبیر زیادت عمر ہوتی ہے ۔ یہ حال ہے اُن مولویوں کا جو بڑے دیانتدار کہلاتے ہیں۔جھوٹ بولنے سے بد تر دنیا میں اورکوئی برا کام نہیں۔جھوٹ کو خدا نے رِجس سے مشابہت دی ہے مگر یہ لوگ رِجس سے پرہیز نہیں کرتے“۔تتمہ حقیقت الوحی/رخ ،ج۲۲/ص458۔
اوپردئے گئے حوالے میں مرزا جی نے یہ دعاوی کئے ہیں:۔
پہلادعویٰ :۔ جو الہام موت کے بارے میں بیان کئے ہیں، وہ صرف مولوی عبدالکریم مرحوم کے لئے تھے۔
دوسرا دعویٰ :۔ مولوی عبد الکریم کی صحت یابی کے کسی الہام کا نکار کیا ہے۔
تیسرادعویٰ :۔ صرف ” ایک خواب میں جو ان کوصحت یاب دیکھا تھا تو وہ تعبیر طلب تھا“۔


پہلے دعوے کی قلعی میں اسی مضمون میں اس حوالے کے پیش کرنے سے قبل ہی کھول چکا ہوں کہ یہ الہامات مولوی عبدالکریم صاحب پر انکی موت کے بعد چسپاں کئے گئے ہیں پہلے انکا کوئی اور مصداق تھا۔اور چونکہ جھوٹے کے کلام میں تضاد ہوتا ہے، اور مرزا صاحب کے کلام کا تضاد اس دعوے کے حوالے سے بخوبی واضح کر دیا گیا ہے، اب باقی دعووں کا تجزیہ پیش خدمت ہے۔ مولوی صاحب کی بیماری کے بارے میں جماعت احمدیہ کی سرکاری خبر، جماعت احمدیہ کے اس وقت کے ترجمان اخبار الحکم کی ۳۱ ،اگست۱۹۰۵ میں شائع ہوئی تھی اور مولوی صاحب ۱۱، اکتوبر ۱۹۰۵ کو وفات پا گئے اور مرزا جی کے الہامات اور اخلاقی کردار کو آئندہ رہتی دنیا تک اپنی جماعت کے لئے باعث شرمندگی بنا گئے۔۳۱ اگست کے اخبار میں جو خبر لگی ہے اسی خبر میں ہی لمبی تمہید کے بعدآپریشن کی یا پھوڑے کو چیرا دینے کے ساتھ ہی مرزا جی کی رویاءلکھی ہے اور یہ خبر ہی مرزا صاحب کے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے لیکن میں آپکے سامنے اسکے علاوہ بھی مواد پیش کرونگا تاکہ قارئین کو کسی تشنہ کامی کا احساس نہ ہو۔یاد رہے کہ مرزاجی کا دعویٰ نبی ہونیکا ہے اور ساتھ ہی انکا قول یہ بھی ہے کہ ” پیغمبر کا کشف اور خواب وحی ہے“۔ایام الصلح ،رخ،ج 14/ص۲۷۵و۲۷۶۔

No comments:

Post a Comment

بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔