القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Monday, June 8, 2009

جھوٹ کی وہی ملمع کاری - حصہ دوم

تحریر و تحقیق : شیخ راحیل احمد

حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا میں جاتا ہوں مگر تم دیکھ لینا کہ ان کی تکلیف کو دیکھ کرمجھے دورہ ہو جائیگا۔خیر حضرت صاحب نے پگڑی منگا کر سر پر رکھی اور ادھر جانے لگے، میں جلدی سے سیڑھیاں چل کر آگے چلی گئی۔ تاکہ مولوی صاحب کو اطلاع دوں کہ حضرت صاحب تشریف لاتے ہیں، جب میں نے مولوی صاحب کو جا کر اطلاع دی ، تو انہوں نے اُلٹامجھے ملامت کی کہ تم نے حضرت صاحب کو کیوں تکلیف دی؟ کیا میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں تشریف نہیں لاتے؟ میں نے کہا کہ آپ نے خود تو کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو میں نے دل کا دکھڑا رویا تھا۔ تم فوراً جاواورحضرت صاحب سے عرض کرو کہ تکلیف نہ فرمائیں۔ میں بھاگی گئی تو حضرت صاحب سیڑھیوں کے نیچے کھڑے اوپر آنے کی تیاری کر رہے تھے، میں نے عرض کر دیاکہ حضور آپ تکلیف نہ فرماویں۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سے بہت محبت تھی اور یہ اسی محبت کا تقاضہ تھاکہ آپ مولوی صاحب کی تکلیف کو نہ دیکھ سکتے تھے، چنانچہ باہر مسجد میں کئی دفعہ فرماتے تھے، کہ مولوی صاحب کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے مگر میں انکی تکلیف دیکھ نہیں سکتا۔ چنانچہ مولوی صاحب آخر اسی مرض میں فوت ہو گئے مگر حضرت صاحب انکے پاس نہیں جا سکے۔ بلکہ حضرت صاحب نے مولوی صاحب کی بیماری میں اپنی رہائش کا کمرہ بھی بدل لیا تھا، کیونکہ آپ جس کمرہ میں رہتے تھے وہ چونکہ مولوی صاحب کے مکان کے بالکل نیچے تھا اس لئے وہاں مولوی صاحب کے کراہنے کی آواز پہنچ جاتی تھی۔ جو آپ کو بیتاب کر دیتی تھی اور مولوی صاحب مرحوم چونکہ مرض کاربنکل میں مبتلا تھے اس لئے انکا بدن ڈاکٹروں کی چیر اپھاڑی سے چھلنی ہو گیا تھا اور وہ اسکے درد میں بےتاب ہو کر کراہتے تھے۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم حضرت صاحب کے مکان کے اس حصہ میں رہتے تھے جو مسجد مبارک کے اوپر صحن کے ساتھ ملحق ہے۔ اس مکان کے نیچے خود حضرت صاحب کا رہائشی کمرہ تھا “۔ سیرت المہدی جلد ۱، صفحہ ۲۸۸۔۲۸۹، روایت نمبر ۳۰۱، مصنفہ مرزا بشیر احمد ایم اے،دوسرا ایڈیشن،دسمبر ۱۹۳۵۔
ویسے تو یہ روایت سب کچھ خود ہی اپنی زبان سے کہہ رہی ہے ، مولوی صاحب اسی مکان کے حصہ میں رہتے تھے، اور دوسری روایتوں کے مطابق مولوی صاحب اکاون(۵۱) دن اس تکلیف میں مبتلا رہ کربانونویں (۵۲) دن فوت ہوئے، لیکن مرزا غلام احمد قادیانی نے اتنا بھی نہ کیا کہ ایک شخص جس سے تمہارا قریبی تعلق تھا،اور تم پر قربان ہوتا تھا، جسکے ساتھ دوستی کے دعوے پبلک میں مسلسل کر رہے تھے لوگوں کو انکے صحت یاب ہونے کی تسلیاں دے رہے تھے ،اسکواپنے گھر کے ہی ایک حصہ میں ایک منٹ کے لئے ہی حال پوچھنے چلے جاو، نزع کے عالم میں مبتلا شخص کو بھی تو تسلی کا کوئی بول سنا دو۔ اوپر سے انکے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود احمد کا یہ دعویٰ ہے کہ،” مرزا جی کے بیٹے بشیر الدین محمود احمد جو بزعم خودمصلح موعود بھی کہلاتے ہیں ، لکھتے ہیں، ”کہ اس ( مرزا غلام احمد) نے ہمارے لئے اخلاقیات اور ضابطہ حیات کا مکمل ذخیرہ چھوڑا ہے،تمام ذی عقل انسانوں کو یہ ماننا پڑےگا کہ ان پر عمل کرنے سے ہی مسیح موعود کی آمد کے مقاصد کی تکمیل ہو سکتی ہے“۔احمدیت یا سچا اسلام ص 56۔( اسپر کسی اور مضمون میں کہ کس نے مکمل ضابطہ اخلاق چھوڑا ہے) اگر دوستی کا نہیں پاس تھا تو آدمی کسی معمولی تعلق والے بلکہ کسی غیر کے بارے میں بھی سنتا ہے کہ وہ بستر مرگ پر، اسکو صرف ایک نظر دیکھنے کے لئے یا ایک لفظ سننے کیلئے زار زار روتا ہے تو سنگدل سے سنگدل انسان مرنے والی کی خواہش پوری کر دیتا ہے مگر مرزا جی ایسے شقی القلب تھے کہ مولوی کریم مرتے مر گئے مگر یہ ایک لمحے کے لئے بھی انکو دیکھنے نہ گئے ،حالانکہ درد سے کراہنے کی آواز بھی سنتے تھے پھر بھی ترس نہ آیا، بلکہ کمرہ ہی بدل لیا تاکہ بے آرامی نہ ہو ، لوگ تو ایک پھانسی پانے والے مجرم کی بھی آخری خواہش پوری کر دیتے ہیں ، لیکن انکو بیماری لگ جانے کے ڈر سے دوستی ، محبت ،پیار،مخلص مرید،نماز کا امام، کچھ بھی نہ یاد رہا ، بیمار پرسی کی کوئی حدیث یاد نہیں آئی۔ مولوی کریم صاحب کی بیماری کے دوران صحت کے الہامات سناتے رہے اور موت کے بعد مریدوں کو سناتے پھرے کہ مجھے انکی کمی محسوس ہوتی ہے ، تاکہ بدزن نہ ہو جائیں ،لیکن بقول شاعر ،

” پاس سے گزر گئے اور مڑ کر بھی نہ دیکھا ۔ میں کیسے یقین کر لوں کہ تم دور جا کے روئے “ ۔اور جب بظاہر تیار بھی ہوئے تو وہ بھی بیگم کے کہنے پر، ویسے بھی عورتیں یہ کہتی تھیں ” کہ مرجا بیوی دی بڑی گل مندا اے“، اور بیگم بھی کیسے منا رہی ہیں ، کہ” جب انکی اتنی خواہش ہے تو کھڑے کھڑے ہو آئیں“، یعنی آپ پر نہ تو ایک گھر میں رہنے کا پاس ہے ، نہ کوئی مرید کا حق ہے، نہ کوئی دوستی کا فرض ہے، نہ اس شخص کی قربانیوں کا کوئی احساس ہے، بس ہاں اب مجبوری ہے کہ ایک مرتے ہوئے شخص کی خواہش ہے بس کھڑے کھڑے ہو آئیں ، مطلب شلجم سے مٹی جھاڑ آئیں، اب مرزا جی بھی ایک تو جانتے تھے کہ مرض الموت میں مبتلا ہیں، دوسرے اپنے مرید کی غیرت والی طبیعت سے بھی یقیناً خوب واقف تھے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے جو خواہش کا اظہار کیا ہے ، بس دل کا دکھ ہے، ورنہ وہ بھی مرزا صاحب کو جان گئے ہیں، اور اس وقت ہوش حواس میں بھی ہیں ، اپنے صحن سے اوپر چھت پر جانے کے لئے تیاری میں اتنا وقت لے لیا کہ مولویانی جی جا کر ان کو بتا دیں کہ مرزا جی اوپر تشریف لانے کے لئے مجبوراً پَر تول رہے ہیں، تاکہ وہ منع کر دیں اور مرزا جی کی توقع کے عین مطابق مولوی صاحب نے منع کر دیا، بیوی کے بیان میں مولوی صاحب کے الفاظ انکی غیرت اور عزت نفس کے عود کر آنے کا حال بتا رہے ہیں کہ” انہوں نے کہا کہ مرزا جی اوپر آنے کی تکلیف نہ کریں“، مرزا صاحب سیڑھیوں کے قریب کھڑے اسی بات کا انتظار کر رہے تھے ، جونہی مولویانی جی نے آ کر مرزا صاحب کو مولوی صاحب کا پیغام دیا۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا،مرزا جی دل میں خوش ہوتے ہوئے رُک گئے اور انکی موت تک بھی چھت تک جا کر ایک نزع کے عالم میں مبتلا دوست کو نہ دیکھا، نہ اسکی آخری اور شدید خواہش پُوری کی، خواہش کو تو چھوڑیں ایسی حالت میں تو حق ہمسائیگی کے تحت ہی(بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی) انسان اپنے دل پر اور طبیعت پر قابو پا کر دو بول تسلی کے دینے چلا جاتا ہے ، بلکہ محلے میں ، بلکہ تھوڑی سی جان پہچان والے کا بھی پتہ چلے تو انسان حال پوچھنے چلا جاتا ہے۔ بہانہ یہ کہ میں انکی تکلیف دیکھ نہیں سکتا، اتنا بودا بہانہ ہے کہ انسان ہنس ہی سکتا ہے۔ مرزا جی کے سامنے انکے والد اور بھائی مر گئے، چھ بچوں نے وفات پائی کیا، اور ان سب سے بڑھکر انکی والدہ نے وفات پائی۔ انکی بیماری اور تکلیف دیکھی یا نہیں، اگر اسکو برداشت کر لیا اور دورہ نہیں پڑا تو کیا اب ایک جانثار مرید کی سخت بیماری کے وقت ہی دورہ پڑنا تھا ؟اور شقی القلبی یہاں تک ہی نہیں بلکہ جسکو اسکی زندگی میں اور مرنے کے بعد پبلک میں اپنا قریبی دوست بتاتے رہے اسکی موت پر ایک آنسو بھی نہیں بہایا۔ میں کوئی بے بنیاد بات نہیں کہہ رہا، بلکہ مرزا صاحب کی سیرت پر لکھی کتاب کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔ مرزا جی کے مرید مفتی محمد صادق کی بیان کردہ روایت کے مطابق”اورحضرت مولوی عبد الکریم کی وفات پرمیں نے بہت غور سے دیکھا مگر میں نے آپ کوروتے نہیں پایا“ روایت 433، سیرت المہدی/ ج۲/ ص ۱۰۵/مصنفہ مرزا بشیر احمد ایم اے۔

No comments:

Post a Comment

بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔