القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Monday, June 8, 2009

حرامی کون - حصہ دوم

Written by شیخ راحیل احمد
Page 2 کا 6
ارشادات مرزا صاحب :۔

۰۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اب تک تمام اہل اسلام کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ آیت مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ‘ احمد ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے اور احمد کے مصداق آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور آپ کے علاوہ اس کا مصداق کوئی نہیں۔ مرزا صاحب سے قبل تمام صحابہ ، مجددین اور آئمہ کرام نے یہی معنی کئے ہیں لیکن مرزا غلام احمد قادیانی کا تمام صحابہ اور بزرگان دین اور مسلمانوں کے بر خلاف دعویٰ ہے کہ وہ اس آیت کے مصداق ہیں۔ ازالہ اوہام/ر خ ، ج ۳/ص 463۔ میں لکھتے ہیں کہ یہ میرے حق میں ہے اور میرا نام احمد ہے ۔ کیا یہ ہتک نہیں کہ ایک آیت خدا تعالےٰ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازل کر رہا ہے اسکو اپنے اوپر چسپاں کر لینا، کسی دلیل سے نہیں بلکہ بے تکی تاویلوں سے؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۱۔ دوسری بات کہ مرزا صاحب کا نام غلام ہے احمد نہیں اور غلام چاہے جتنا بھی بڑھ جائے ، جسکا غلام ہے اسکے برابر یا اسکے ٹائٹل کا مصداق نہیں ہو سکتا۔ مرزا غلام اے قادیانی کے بڑے بھائی کا نام غلام قادر ہے ، اسکا بھی کہیں کہ نام قادر ہے اور اسکو بھی آیت اللہ ہر چیز پر قادر ہے کا مصداق مانو؟ ایک شخص کا نام نصراللہ ہے کیا اسکا نام اللہ ہوگا، اسکو بھی کہو کہ یہ اللہ ہے جو مدد لیکر آیا ہے؟

۲۔ اگر میرے قادیانی دوست کہیں کہ جی ایک بات سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا جو آپ نکال رہے ہیں اورمرزا صاحب اپنے کو غلام ہی سمجھتے تھے تو ان اشعار کا کیا مطلب نکالیں گے

منم مسیح زماں منم کلیمِ خدا ۔ منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد

یعنی” میں مسیح زمان ہوں ، میں کلیم خدا ہوں، میں محمد اور احمد ہوں ، مجتبیٰ ہوں“۔تریاق القلوب /ر خ ، ج ۵/ ص ۱۳۴۔ کیا یہ برابری کا دعویٰ نہیں؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۳:۔اور اگر یہ بات بھی کافی نہیں تو اس شعر کے بارے میں کیا کہیں گے؟ انبیاء گر چہ بودہ اند بسے ۔ من بعرفاں نہ کم ترم زَکسے

یعنی انبیاءاگرچہ بہت ہوئے ، لیکن میں بھی کسی سے کم تو نہیں۔نزول المسیح ر خ ، ج ۱۸/ص ۴۷۷ / ۔ اب تک کی اس فقیر نے آپکے سامنے جو مرزا صاحب کے بیان رکھے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزا صاحب نعوذ با للہ اپنے آپ کو کم از کم سرور کائنات ، صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر سمجھتے تھے۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

4۔ کیا میں واقعی صحیح سمجھا ہوں؟ مرزا صاحب کے بیٹے کی شہادت میری اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ جو نتیجہ میں نے نکالا ہے وہ صحیح ہے ، لکھتے ہیں ،” مسیح موعود کو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت محمدیہ کے تمام کمالات کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہو گیا کہ ظلی نبی کہلائے پس ظلی نبوت نے مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی کریم کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا“۔ کلمۃ الفصل/ص۱۱۳/ از مرزا بشیر احمد ایم اے۔ ان حوالوں سے کم ازکم یہ تو ثابت ہو گیا کہ مرزا صاحب اور انکے متبعین انکو نعوذباللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر سمجھتے ہیں۔کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

۵:۔ لیکن کیا ظل ، اصل کے برابر ہو سکتا ہے؟ کیا سایہ وجود کی حقیقی برابری کر سکتا ہے؟رہی ظِل اور بروز کی بات تو اسکا ٹنٹا بھی مرزا صاحب کے بیٹے ، مرزا بشیرالدین نے صاف کر دیا، وہ لکھتے ہیں کہ مرزا صاحب اسی طرح کے نبی تھے جس طرح دوسرے انبیاء، اور یہ ظِل، بروز وغیرہ کی بحث صرف لوگوں کو سمجھانے کے لئے تھی۔

۶:۔ لیکن بات صرف برابری کی نہیں بلکہ مرزا صاحب ہندو مذہب کے عقیدہ کے مطابق یقین کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرزا صاحب کی ذات میں جنم لیا ہے، لیکن یہ بھی قدم بہ قدم دماغ میں بٹھاتے ہیں، لکھتے ہیں،” پھر اس کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی اللہ ہے ۔ محمد رسول اللہ والذین معہ اشدا ءعلی الکفار رحماءبینہم ۔ اس وحی الہٰی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی“۔ایک غلطی کا ازالہ / ر خ، ج ۱۸/ ص ۲۰۷۔ دیکھیں اپنا جھوٹ کس طرح خدا پر ڈال دیا

۷:۔لیکن بات آگے چلتی ہے ، صرف نام ہی نہیں دیا بلکہ اپنے وجود کو نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود قرار دیا، لکھتے ہیں کہ ، ”بروزی طور پر وہی خاتم الانبیاءہوں اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے“۔ ایک غلطی کا ازالہ / ر خ، ج ۱۸/ ص ۲۱۲۔

۸:۔ مرزا صاحب نے بروز لفظ کے استعمال سے جو دجل کا کھیل کھیلا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔صوفیاءکی اصطلاح میں بروز کے یہ معنی ہیں ناقص درجہ کی روح ،کسی کامل کی روح سے استفاضہ کرے۔ اگر مرزا صاحب کے بھی یہی معنی ہیں تو اس سے نہ صرف مماثلت کا دعویٰ نہیں ہو سکتا بلکہ وجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ بھی نہیں ہو سکتا۔ اور عین عین ہے اور بروز بروز ہے، اگر بروز کو عین مان لیں تو بروز کیسا؟

۹:۔پھرعربی لغت کے لحاظ سے بروز کے معنی ہیں کسی چھپی ہوئی چیز کا ظاہر ہونا/ باہر نکلنا۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی روح یا جسم یا دونوں مرزا صاحب ہیں تو یہ ممکن نہیں۔قرآن کریم کی کئی آیات میں بروز کا لفظ استعمال ہوا ہے، سورة ابراہیم، آیت ۴۸ / سورة ابراہیم، آیت ۳۱ / سورة غافر ، آیت ۱۶ / سور البقرة ، آیت۰ ۲۵ / سورة النساء، آیت ۸۱ / سورة آل عمران ، آیت ۱۵۴۔ (بشکریہ ،خوان ارمغان، مصنفہ فضل احمد گورداسپوری،مطبوعہ ۱۹۱۵)۔ ان سب میں اللہ تعالےٰ نے قبروں سے مردوں کا نکلنا، یا گھروں کے اندر سے یا کسی اوٹ سے باہر اور ظاہر ہو کر نکلنے کے کئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اللہ تعالےٰ کے نزدیک بروز اس کو کہتے ہیں کہ جو جسم چھپ گیا ہو یا گھر کے اندر یا کسی اوٹ میں اور وہ ظاہر ہو کر سامنے آ جائے۔ اب اس طرح تو بروز محمدی کے معنی صرف یہی ہو سکتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روضہ پاک سے اُٹھ بیٹھیں ، اور ایسا ماسوائے روز قیامت کے ممکن نہیں۔اگر مرزا کو ہی نعوذبااللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مان لیں تو کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں چھپے ہوئے تھے جو اب ظاہر ہو گئے؟کیا یہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین نہیں؟

No comments:

Post a Comment

بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔