القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Saturday, August 15, 2009

ایسے بھی ہوتے ہیں خوش نصیب!

قادیانی مذہب سے تائب ہونے والے22 سالہ نومسلم نوجوان جناب مصطفی احمد صدیقی کے قبول اسلام اور اس کے عظیم الشان جنازہ کی سوزو گداز میں ڈوبی ہوئی ایمان افروز رُوداد

تحریر و تحقیق
محمدمتین خالد


انٹرنیٹ کی حیرت انگیز ایجاد نے دنیا کو گاﺅں بنا دیا ہے۔ آپ کسی بھی موضوع سے متعلق اپنے گھر بیٹھے دنیا بھر کی معلومات پلک جھپکتے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہاں مختلف مذاہب عالم کے لوگ اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ و تشہیر بھی کرتے ہیں۔ ان میں قادیانی سب سے زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ وہ اپنے مذہب کو اسلام اور خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ اس طرح وہ حق کے متلاشی غیر مسلموں کو اور بعض اوقات مسلمانوں کو شکوک و شبہات اور باطل تاویلات کے ذریعے گمراہ کر کے پھانس لیتے ہیں۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے محاذ پر قدرت حق بعض افراد کا انتخاب خود کرتی ہے۔ ایسے ہی خوش نصیبوں میں جناب پروفیسر سمیر ملک صاحب ہیں جو اپنی مخلص ٹیم کے ساتھ انٹرنیٹ پر قادیانیوں سے مناظرے کرتے ہیں۔ اس ٹیم میں جناب عامر خورشید صاحب، جناب عبداللہ صاحب، جناب عمر شاہ صاحب اور جناب سید محمد گیلانی صاحب نمایاں طور پر پیش پیش ہیں۔ ردقادیانیت کے ماہر یہ نوجوان حضرات نہ صرف قادیانیوں کے پھیلائے ہوئے زہریلے اور باطل شکوک و شبہات کا مکمل دلائل کے ساتھ جواب دیتے ہیں بلکہ برجستہ متنازعہ قادیانی عبارات پیش کر کے انھیں میدان چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اس ٹیم کے ایک دبلے پتلے لیکن ایمانی طور پر نہایت مضبوط اور متحرک نوجوان جناب سیّد محمدگیلانی کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خوبیوں اور صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ وہ تحریک ختم نبوت کے نامور اور بے باک مجاہد بزرگ جناب سیّد محمد امین گیلانی ؒ کے پوتے اور منفرد طرز کے معروف شاعر اسلام جناب سید سلمان گیلانی کے صاحبزادے ہیں۔ گیلانی دن بھر اپنے دفتر میں کام کرتے اور رات کو پوری مستعدی اور تندہی کے ساتھ انٹرنیٹ پر تحفظ ختم نبوت کے محاذ کو سنبھالتے ہیں۔ ایک رات وہ قادیانیوں کے شکوک و شبہات کا جواب دے رہے تھے کہ اچانک ایک قادیانی نوجوان نے گیلانی کو سوال کیا ”آپ کہتے ہیں کہ قادیانی جماعت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی اللہ تعالیٰ کے گستاخ تھے۔ یہ بات آپ کے مولویوں کا پروپیگنڈا ہے۔ حضرت مسیح موعود مرزا قادیانی اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کیا آپ اس کا کوئی ثبوت دے سکتے ہیں؟“ یاد رہے کہ جب اس قادیانی نوجوان نے جناب گیلانی کو یہ سوال کیا تو اس وقت انٹرنیٹ پر 100 سے زیادہ قادیانی اس بحث کو براہ راست ملاحظہ کر رہے تھے۔ بہرحال گیلانی نے بڑی توجہ سے اس سوال کو پڑھا اور اس قادیانی نوجوان سے کہا کہ میں آپ کے سامنے مرزا صاحب کی کتاب کشتی نوح کا صفحہ نمبر 47 (مندرجہ روحانی خزائن ج 11 ص 50) کا عکس پیش کرتا ہوں۔ آپ اور باقی قادیانی حضرات سے میری گزارش ہے کہ اسے بغیر تعصب کے غیر جانبدار ہو کر غور سے پڑھیں اور دیکھیں مرزا قادیانی نے اللہ تعالیٰ کی شان میں کس قدر بھیانک گستاخی کا ارتکاب کیا۔ یہ اقتباس مندرجہ ذیل تھا۔”اُس (اللہ تعالیٰ) نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا۔ پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں، میں نے پرورش پائی اور پردہ میں نشوونما پاتا رہا۔ پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 496 میں درج ہے۔ مریم کی طرح عیسیٰ ؑ کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں، بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ 556 میں درج ہے، مجھے مریم سے عیسیٰ بنایا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔“ (کشتی نوح صفحہ 47، مندرجہ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 50 از مرزا قادیانی)
پھر اسی سے متعلقہ مرزا قادیانی کے ایک مرید کی کتاب سے دوسرا حوالہ پیش کیا:۔
”حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے ایک موقع پر اپنی حالت یہ ظاہر فرمائی ہے کہ کشف کی حالت آپ پر اس طرح ہوئی کہ گویا آپ عورت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے رجولیت کی طاقت کا اظہار فرمایا تھا، سمجھنے والے کے لیے اشارہ کافی ہے۔“ (اسلامی قربانی ٹریکٹ نمبر 34، از قاضی یار محمد قادیانی مرید مرزا قادیانی)۔
اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات پر اس سے بڑھ کر کمینہ حملہ اور اوباشانہ بہتان اور کیا ہو سکتا ہے۔ نعوذ باللہ، خدا تعالیٰ کی ذات اقدس بھی مرزا قادیانی اور اس کے پیروکاروں سے نہ بچ سکی۔ ایسا فاسد خیال اور لغو عقیدہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک کسی بھی گستاخ، منہ پھٹ اور زبان دراز سے نہیں سنا گیا۔ جب سے یہ دنیا قائم ہوئی ہے، آج تک کسی شخص نے بھی اللہ تعالیٰ پر ایسا بے ہودہ، گھٹیا اور بدترین کفریہ الزام نہیں لگایا۔ یہ ذلت و رسوائی صرف مرزا قادیانی کو ہی نصیب ہوئی، جس کا نقد انعام اسے دنیا میں لیٹرین میں عبرتناک موت کی صورت میں ملا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
قادیانی نوجوان نے مرزا قادیانی کی کتاب سے پیش کردہ عکس دیکھا، پڑھا تو وہ حیرت اور پریشانی کے سمندر میں ڈوب گیا۔ اس نے نہایت پریشانی اور منت سماجت کے لہجہ میںگیلانی سے کہا: بھائی! خدارا اپنا فون نمبر دے دو۔ میں اس حوالہ کی تحقیق کے بعد آپ سے رابطہ کروں گا۔گیلانی نے اسے اپنا موبائل نمبر دے دیا۔ تیر ٹھیک نشانے پر لگ چکا تھا۔ رات کے 2 بج رہے تھے، قادیانی نوجوان سونے کے لیے اپنے کمرے میں آگیا مگر نیند کوسوں دور تھی۔ پریشانی کے عالم میں تمام رات بستر پر کروٹیں لیتا رہا۔ صبح ہوئی تو اس نے اپنے جاننے والے قریبی قادیانی مبلغین سے فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ ”مجھے اپنے مذہب پر شک ہے۔ میرے کچھ سوالات ہیں، مجھے ان کا جواب چاہیے۔ میں اپنی آخرت برباد نہیں کرسکتا“۔ قادیانی مبلغین فوری طور پر اُس کے گھر پہنچے اور کہا: بتاﺅ تمہارا کون سا سوال ہے؟ اس پر قادیانی نوجوان نے مرزا قادیانی کی کتاب کشتی نوح کا مذکورہ حوالہ پیش کیا اور کہا، کیا کوئی صحیح العقل آدمی ایسی باتیں کر سکتا ہے؟ قادیانی مبلغین نے حوالہ دیکھا تو سکتے میں آ گئے اور اس کی مختلف تاویلات کرنا شروع کر دیں۔ نوجوان نے کہا کہ وہ کوئی تاویل سننے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ اب وہ اپنے مذہب کا غیر جانبدار ہو کر مزید مطالعہ کرے گا۔ اس پر قادیانی مبلغین بڑبڑاتے ہوئے غصے کے عالم میں چلے گئے۔ چند دنوں بعد نوجوان نے گیلانی کو فون کر کے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ اسامہ نے بخوشی اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اس کی خوب آﺅ بھگت کی، اس کے سوالات کے جواب دیے، شبہات دور کیے اور چند کتابیں ثبوت حاضر ہیں، احمدی دوستو! تمھیں اسلام بلاتا ہے، چھوٹا منہ بڑی بات، رد قادیانیت کے زریں اصول اور قادیانی شبہات کے جوابات وغیرہ پیش کیں اور درخواست کہ وہ ان کتابوں کا بغور مطالعہ کرے۔ نوجوان نے وعدہ کرتے ہوئے اجازت چاہی۔ چنانچہ اُس نے مذکورہ کتابوں کا مطالعہ شروع کیا اور جہاں شک ہوا، وہاں متنازعہ حوالہ جات کا مکمل سیاق و سباق کے ساتھ اصل قادیانی کتب سے موازنہ کیا۔ ساتھ ساتھ انٹر نیٹ پر سمیر ملک اور گیلانی کے قادیانیوں سے مناظروں کو بھی بغور ملاحظہ کرتا رہا اور یہاں سے اہم حوالہ جات نوٹ کرتا رہا۔ تقریباً ایک ہفتہ بعد اس کا فون آ گیا۔ اس نے بھرائی ہوئی رقّت آمیز آواز میں کہا: ہیلو،گیلانی! مبارک ہو! میں نے حق کو پا لیا۔ میں قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ گیلانی نے نہایت خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا: ¾مرحبا مرحبا، مصطفی احمد صدیقی! مرحبا، اب تم میرے بھائی ہو۔ میں تمھیں لینے کے لیے خود تمھارے گھر آ رہا ہوں۔گیلانی بجلی کی تیزی سے مصطفی احمد صدیقی کے گھر پہنچا۔ اسے گلے لگایا، ہاتھ چومے اور مجاہدین ختم نبوت کی ایک ٹیم کے ساتھ اسے حضرت نفیس شاہ الحسینیؒ کے ہاں لے گیا۔ جہاں حضرت کو تمام داستان سنائی۔ علالت کے باوجود حضرت نے نہایت خندہ پیشانی سے کھڑے ہو کر اس نوجوان کو گلے لگایا۔ اسے اسلام قبول کروایا اور ایمان کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں تفصیلاً بتایا۔ اس موقع پر حضرت نے مصطفی احمد صدیقی کے اعزاز میں ایک پرتکلف چائے کا اہتمام کیا اور آخر میں ڈھیر ساری دعاﺅں کے ساتھ اسے اپنی خانقاہ سے رخصت کیا۔ایک دفعہ مصطفی احمد صدیقی نے اپنے قریبی دوستوں کی محفل میں اپنا ایک ایمان افروز خواب بیان کرتے ہوئے کہا”میرے والد محترم رفیق احمد صدیقی قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کر چکے تھے۔ پھر تھوڑے ہی عرصہ بعد اُن کا انتقال ہوگیا۔ ایک رات وہ میرے خواب میں تشریف لائے۔ نہایت سفید رنگ کا بہترین کرتا شلوار پہنے، ہاتھ میں تسبیح لیے، درود شریف پڑھتے ہوئے مسجد کی طرف جاتے ہوئے مجھے گلے لگایا اور آسمان سے آتی ہوئی نور بھری روشنی کی طرف اشارہ کر کے مجھے اُسے حاصل کرنے کی تلقین کی۔ گویا میرے والد محترم مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دے رہے تھے“۔
اسلام قبول کرنے کے بعد مصطفی احمد صدیقی کی کایا پلٹ چکی تھی۔ پہلے وہ قادیانیت کا دفاع کرتا تھا، اب وہ قادیانیت کی سرکوبی کے سلسلہ میں رات بھر انٹرنیٹ پر بیٹھا رہتا اور قادیانیوں کو مناظرے اور مباحثے کی دعوت دیتا۔ انہیں قادیانی کتب سے متنازعہ عبارات پڑھنے کی ترغیب دیتا، آنجہانی مرزا قادیانی کے غلیظ کردار اور اس کے جھوٹے ہونے پر انھیں ناقابل تردید حوالے اور شواہد پیش کرتا، اس حوالے سے انہیں چیلنج کرتا اور پھر انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا۔ اس پر قادیانی اپنے جھوٹے نبی کی عادت پر عمل کرتے ہوئے اسے گندی گالیاں دیتے، نقلی مسلمان کہہ کر اس کا تمسخر اڑاتے اور اسے عبرتناک انجام کی دھمکیاں دیتے۔ لیکن وہ یہ سب کچھ بڑے تحمل اور صبر سے سنتا اور انھیں کہتا خدا کی قسم! میں تمہارا سچے دل سے خیرخواہ ہوں۔ میں تمھیں جہنم کی آگ سے نکال کر جنت میں داخل کروانا چاہتا ہوں۔ مصطفی احمد صدیقی مسلسل 2 سال تک انٹرنیٹ پر یہ جانگسل فرائض سرانجام دیتا رہا۔ اس دوران وہ اکثر قادیانیوں سے پوچھتا کہ تمہاری محفلوں میں ہر وقت مرزا قادیانی کا ذکر ہوتا ہے، لیکن حضور خاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک نہیں ہوتا، آخر کیوں؟ قادیانیوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوتا اور وہ خاموش ہو جاتے۔ مصطفی احمد صدیقی اپنے گھر والوں کو دعوت اسلام دیتا مگر گھر والے اس سے انتہائی متعصبانہ اور سوتیلے پن کا برتاﺅ کرتے، اُسے اسلام چھوڑنے پر مجبور کرتے لیکن وہ پہاڑ ایسی استقامت لیے مضبوطی سے اس پر قائم رہا۔ قادیانی مبلغین نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر اس نے ہمیشہ انہیں شکست فاش دی۔ وہ اکیلا اُن سے مناظرے کرتا اورانہیں لاجواب کر دیتا۔ ایک دفعہ اُس کے ماموں طاہر،کزن نعمان (انتہائی متعصب اور جنونی قادیانی) اور مبلغین نے مصطفی احمد صدیقی سے کہا کہ بتاﺅ تمہیں قادیانی مذہب کی کس چیز پر اعتراض ہے؟ اس پر مصطفی احمد صدیقی نے اُنہیں کہا کہ مرزا قادیانی جسے آپ نبی، رسول، مسیح موعود اور مہدی وغیرہ کہتے ہیں، اس کا کردار اس قابل نہیں کہ اُسے ایک شریف انسان بھی کہا جاسکے۔ اُس کی تمام پیش گوئیاں جھوٹ ثابت ہوئیں۔ پھر اس نے مرزا قادیانی کی وحیوں پر مشتمل کتاب ”تذکرہ“ سے ایک نشان زدہ صفحہ نکال کر دکھانے کی کوشش کی تو اُس کے کزن نعمان نے اُس سے زبردستی کتاب چھین لی اور اُسے برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ بعض نبیوں کی پیش گوئیاں بھی پوری نہیں ہوئی تھیں(نعوذ باللہ) اس پر مصطفی احمد صدیقی نے اُنہیں چیلنج کیا کہ اگر آپ قرآن و سنت سے اس کی کوئی ایک بھی مثال پیش کر دیں تو میں آپ کو منہ مانگا انعام دوں گا۔ اس پر سب کو سانپ سونگھ گیا اور وہ غصے کے عالم میں واپس چلے گئے۔علامہ اقبال ٹاﺅن میں قادیانی مبلغین کے ساتھ ایک اور مناظرے کے دوران جب مصطفی احمد صدیقی نے مرزا قادیانی کے کردار پر بحث کرتے ہوئے انہیں لاجواب کیا تو اس کے کزن نعمان نے بے اختیار اسے گندی گالیاں دینی شروع کر دیں۔ اس کے ماموں طاہر نے کہا کہ تم مرتد ہو گئے ہو، قادیانی مبلغین نے کہا کہ مولویوں نے تمہارا دماغ خراب کردیا ہے۔ نوجوان نے یہ سب کچھ بڑے تحمل سے سنا، برداشت کیا اور پھر اعتماد سے کہا آپ مجھے مطمئن کرنے آئے ہیں یا ذلیل۔ کیا یہی خوش اخلاقی ہے جس کا آپ ہر وقت پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ آپ کا تو نعرہ ہے”Love for all hatred for none”یعنی”محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں“۔ لیکن آپ سب کچھ اس کے برعکس کر رہے ہیں۔ بہر حال آپ مجھے اس سے بھی زیادہ طعن و تشنیع کرلیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ میرے عقیدے کا معاملہ ہے۔ آپ مجھے مطمئن کریں اور میرے سوالات کا جواب دیں۔ لیکن وہ سب نفرت و حقارت کا اظہار کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔ کچھ عرصہ پہلے مصطفی احمد صدیقی نے گیلانی کو فون پر بتایا کہ میرے ماموں طاہر نے مستقل طور پر ایک خطرناک قادیانی مربی میرے پیچھے لگا دیا ہے۔ وہ اکثرمجھے قادیانی عبادت گاہ میں بلاتا ہے لیکن میں اکیلے نہیں جانا چاہتا۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔ گیلانی نے جناب سمیر ملک سے رابطہ کیا تو وہ اپنی فیملی کے ساتھ کسی قریبی عزیز کی شادی کے سلسلہ میں شہر سے باہر جارہے تھے، لیکن انھوں نے گاڑی واپس اپنے گھر کی طرف موڑ لی اور تھوڑی دیر کے بعد مناظرے کے لیے بتائے ہوئے ایڈریس پر قادیانی عبادت گاہ واقع گلشن راوی پہنچ گئے۔ جناب سمیر ملک نے قادیانی مبلغ کو مناظرے کے میدان میں چاروں شانے چت کردیا۔ مربی نے فوراً مصطفی احمد صدیقی کے ماموںطاہر احمد کو فون کیا اور کہا کہ یہ لڑکا ہمارے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل چکا ہے اور جماعت کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ اس کے بعد اُسے باقاعدہ دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں۔
13 فروری 2009ءکی شام مصطفی احمد صدیقی اپنے دفتر سے گھر جا رہا تھا کہ سڑک پر بارش کی پھسلن سے اس کا موٹر سائیکل ایک ریہڑے سے ٹکرایا اور وہ شدید زخمی ہو گیا۔ اسے فوراً جناح ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ اپنے خاندان میں واحد مسلمان اور اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کا والد کئی سال بیشتر فوت ہو چکا تھا۔ گھر میں کوئی مرد نہ ہونے کی وجہ سے ماں اپنے بیٹے کی میت اپنے بھائی (مصطفی صدیقی کا ماموں طیب قادیانی) کے گھر مرغزار کالونی لے آئی۔ جہاں تمام قادیانی رشتہ دار اکٹھے ہو گئے۔ مصطفی احمد صدیقی کی بڑی ہمشیرہ کینیڈا رہتی ہیں۔ اس نے درخواست کی کہ وہ اپنے بھائی کا آخری دیدار کرنا چاہتی ہے۔ لہٰذا اس کی تدفین ایک دن کے لیے ملتوی کر دی جائے۔ چنانچہ مصطفی احمد صدیقی کی میت عادل ہسپتال مین بلیوارڈ ڈیفنس کے سرد خانے میں رکھ دی گئی۔ ہفتہ کی رات کارکنانِ ختم نبوت کو اس حادثہ فاجعہ کا علم ہوا توجناب عامر خورشید صاحب نے فوراً دوستوں کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی جس میں ختم نبوت لائیرز فورم کے عہدیداروں کو خصوصی طور پر دعوت دی گئی۔ اجلاس میں سب سے پہلے اس بات پر غور و خوض کیا گیا کہ کہیں یہ قتل کی واردات تو نہیں؟ اس کی فوری تفتیش کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی گئی۔ ٹیم نے جائے وقوعہ سے ٹھوس شہادتیں حاصل کرنے کے بعد ریسکیو 1122 سے رابطہ کیا جن کے پاس مصطفی احمد صدیقی صاحب کو جناح ہسپتال لے جانے کا ریکارڈ تھا۔ پھر جناح ہسپتال کی ایمرجنسی سے بھی رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مصطفی احمد صدیقی کے سینے اور چہرے پر زخموں کے نشان تھے اور ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق یہ حادثہ تھا۔اس کے بعد قادیانیوں سے مسلمان میت کے حصول کا معاملہ پیش آیا۔ چنانچہ بزرگوں سے مشورہ کرنے کے بعد کارکنان ختم نبوت کی ایک ٹیم اہل محلہ کے ساتھ قادیانیوں کے گھر گئی اور انھیں بتایا کہ چونکہ مصطفی احمد صدیقی قادیانی مذہب سے تائب ہو کر مسلمان ہو چکا تھا۔ اس لیے اس کی تجہیز و تکفین کی تمام تر ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا آپ اس کی میت ہمارے حوالہ کر دیں، ہم اسے اسلامی طریقہ سے سپرد خاک کرنا چاہتے ہیں۔ قادیانیوں نے شروع میں کچھ لیت و لعل سے کام لیا مگر بعد میں کارکنان ختم نبوت کے جذبے اور تیور دیکھ کر میت برادر گرامی جناب عامر خورشید صاحب کے حوالہ کر دی۔ کارکنان ختم نبوت فرط جذبات سے میت سے لپٹ گئے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ کوئی مصطفی احمد صدیقی کی پیشیانی چوم رہا تھا اور کوئی اس کے پاﺅں کو بوسہ دے رہا تھا۔ قادیانی یہ منظر دیکھ کر حیران ہو رہے تھے…. انھیں واقعی حیران ہونا چاہیے تھا۔ میت کو مسنون طریقے سے غسل دے کر نہایت سفید اور اجلا کفن پہنایا گیا۔ میت کے اردگرد گلاب کے ہزاروں پھول مصطفی احمد صدیقی کو خراج تحسین پیش کر رہے تھے۔ کوئی یقین نہیں کر رہا تھا کہ میت پر 40 گھنٹے گزر چکے ہیں۔ کیونکہ اس کے جسم سے معطر اور بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ مصطفی احمد صدیقی کا چہرہ گلاب کے پھول کی طرح نہایت خوبصورت اور تر و تازہ تھا۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ طاری تھی۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور اچانک بیدار ہو کر ابھی سب کو حیران کر دیں گے۔ جنازہ اٹھانے سے پہلے مصطفی احمد صدیقی صاحب کی والدہ اور بہنوں نے چہرہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بزرگوں سے مشورہ کے بعد اس امید پر کہ شاید اللہ تعالیٰ انھیں بھی ہدایت نصیب فرما دے، اجازت دے دی گئی۔ ان کے ساتھ اور بھی رشتہ دار خواتین تھیں۔ وہ دیر تک مصطفی احمد صدیقی کے چہرے کا آخری دیدار کرتی رہیں۔ مصطفی احمد صدیقی کی والدہ نے جانے سے پہلے وہاں پر موجود کارکنان ختم نبوت کو مخاطب کرتے ہوئے بلند آواز سے کہا: ”آفرین ہے آپ پر، آپ لوگوں نے میرے بیٹے کو دولہا بنا دیا ہے۔“ اس پر ایک کارکن نے جواباً کہا: ”اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اپنے بیٹے کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔“ٹھیک دو بجے جب مصطفی احمد صدیقی کا جنازہ تدفین کے لیے اٹھایا گیا تو فضا کلمہ طیبہ کے ورد سے گونج اٹھی۔ لوگ پرجوش جذبات میں نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت، تاجدار ختم نبوت زندہ باد، قادیانیت مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔ ہر آنکھ اشک بار تھی۔ سینکڑوں روتی ہوئی آوازوں کا ایک تسلسل تھا جو تھمنے کا نام نہ لیتا تھا۔ یہ ایک ایسا ایمان افروز منظر تھا جسے کبھی نہ بھلایا جا سکے گا۔ قادیانیوں کا خیال تھا کہ اس نوجوان کے جنازہ میں محض گنتی کے چند لوگ شریک ہوں گے۔ ایسے موقع پر حضرت امام احمد بن حنبلؒ یادآتے ہیں جنہوں اپنے ایک مخالف کے جواب میں فرمایا تھا۔”حق و باطل کے درمیان ہمارے مقام کا تعین خود ہمارا جنازہ کرے گا“ مصطفی احمد صدیقی کے جنازے نے فیصلہ کردیا تھا کہ وہ حق پر ہے اوراس کے مخالفین باطل۔مجاہد ختم نبوت کی میت کو کندھا دینے کے لیے ہر شخص اپنے لیے باعث سعادت سمجھتا تھا۔ کئی عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کی چارپائی کو ہاتھ لگا کر اپنے جسم پر پھیرتے اور اس کو اپنے لیے باعث برکت کہتے۔ نمازِ جنازہ مجاہد ختم نبوت ممتاز عالم دین، حضرت مولانا عبدالرحمن مدظلہ¾ نے پڑھائی۔ مرکز سراجیہ کے مہتمم جناب صاحبزادہ رشید احمد مدظلہ¾ اور مولانا محب النبی سمیت علماءکرام کی بڑی تعداد نے جنازہ میں شرکت فرمائی۔ مصطفی احمد صدیقی کے قریبی دوستوں جناب میاں آصف جاوید صاحب اور جناب وقار الحسن صاحب کے علاوہ دنیا ٹی وی چینل کے درجنوں کارکنوں نے بھی خصوصی شرکت کی۔ اس موقع پر احقر نے شرکاءجنازہ سے خطاب کرتے ہوئے انھیں جناب مصطفی احمد صدیقی کے قبول اسلام کی پوری روداد سنائی اور تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر اس کی گرانقدر خدمات بیان کیں۔ احقر نے عرض کیا کہ عموماً جنازے میت کی مغفرت کے لیے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ جنازہ خود شرکاءکی بخشش کا ذریعہ ہے۔ یہ رتبہ بلند ملا، جس کو مل گیا۔ میں نے عرض کیا کہ اس نوجوان کی عمر صرف 2 سال تھی کیونکہ اس نے 20 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا اور 22 سال کی عمر میں اپنے رب کے حضور پہنچ گیا۔ وہ ایک ناگہانی حادثے کا شکار ہوا اور اس لحاظ سے اسے شہادت کا مرتبہ بھی حاصل ہے۔ مصطفی احمد صدیقی کے جسد خاکی کو جب لحد میں اتارا گیا تو فضا ایک بار پھر ختم نبوت زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ اس موقع پر نہایت جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ کارکنان ختم نبوت دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے اور الوداع الوداع مصطفی احمد صدیقی الوداع کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس وقت مجھے محترم نعیم صدیقی کی یہ نظم (ایک دو لفظوں کی تبدیلی کے ساتھ) فضا میں تلاطم برپا کرتی محسوس ہو رہی تھی۔ ادب سے اس نعش کو اتارو!۔
رسن کا حلقہ ادب سے کھولو!۔
دبے دبے پاﺅں، ہولے ہولے، سبک سبک طرز سے چلو یاں!۔
ادب سے لو سانس دھیما دھیما، بلند آواز میں نہ بولو!۔
تمام دیوار و در سجاﺅ، تمام ماحول کو سنوارو!۔
درود پڑھ کر، سلام کہہ کر، یہاں پہ نذرِ وفا گزارو!۔
ادب سے اس نعش کو اتارو!۔
یہ نعش مصطفی احمد صدیقی کی ہے!۔
مصطفی احمد صدیقی! جس نے اذیتوں سے مئے تمنا کشید کی ہے!۔
مصطفی احمد صدیقی! جس نے بدن کے بدلے حیاتِ دائم خرید کی ہے!۔
یہ پاک میت ہے ایک سورج! ضیاءیہ صبحِ امید کی ہے!۔
مصطفی کی نعش کے ادب میں!۔
تمام تاریخ رک گئی ہے!۔
زماں کی گردش ٹھہر گئی ہے!۔
ہیں علم و فن دست بستہ حاضر
مصطفی کی نعش کے ادب میں تمام تہذیب جھک گئی ہے
وہ روحِ سقراط آ رہی ہے جلو میں شاگرد اپنے لے کر ادھر یہ دیکھو حسینؓ بسمل!!!۔
یہ ابن حنبل، امام مالک، ادھر جناب ابوحنیفہ!۔
کسی کے ہاتھوں میں تیغ براں، کوئی لیے خامہ و صحیفہ!۔
سدا بہار اپنے زخم لے کر، پرو کے زخموں کے ہار لائے!۔
مری نگاہیں یہ دیکھتی ہیں!۔
فلک سے قدسی اتر رہے ہیں!۔
پرے وہ باندھے ہوئے مسلسل
صلیب گہ سے گزر رہے ہیں
وہ حوریں آئیں اٹھائے پرچم
نئے مجاہد کا خیر مقدم
حکایتِ جہد آدمی کا یہ نعش عنوان بن گئی ہے
یہ جانِ ایمان بن گئی ہے! یہ حشرت سامان بن گئی ہے!۔
ادب سے اس نعش کو اتارو!۔
الوداع! مصطفی احمد صدیقی، الوداع!!!۔

قارئین کرام! رات آدھی سے زیادہ ڈھل چکی ہے۔ میں اپنی لائبریری میں بیٹھا اکیلا رنج و الم کے عالم میں یہ سطور سپرد قلم کر رہا ہوں۔ تصور میں اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ جناب مصطفی احمد صدیقی میرے سامنے کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں۔ انکل متین! آپ کا اور آپ کے تمام ساتھیوں کا بہت بہت شکریہ۔ میں نے کہا: کس بات کا؟ کہنے لگے: آپ لوگوں نے مجھے جہنم سے نکالا اور میری تجہیز و تکفین بڑے شایان شان طریقے سے کی۔ میں نے عرض کیا: یہ تو ہمارا فرض تھا۔ پھر نجانے کیوں میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ اس پر مصطفی احمد نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے انکل۔ کیا آپ اللہ کی رضا پر خوش نہیں؟ میں نے عرض کیا: یار صدیقی! میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر ہزار بار خوش ہوں۔ تم ایسا آفتاب ہو جس کی روشنی سے بے شمار تاریک دل منور ہوئے، تم ملت اسلامیہ کے ماتھے کا جھومر ہو، تم لاکھوں میں ایک ہو، تم نے عقیدہ ختم نبوت کا دفاع کر کے ہمارے جذبوں کو ازسرنو زندہ کیا ہے۔ اس لیے ایک کمزور انسان ہونے کے ناتے تمہاری جدائی برداشت نہیں ہو رہی۔میں روتے ہوئے اسے کہتا ہوں، صدیقی! تمھیں معلوم ہے کہ تمھارے دوست کس قدر غم سے نڈھال ہیں، وہ خود کو اکیلا محسوس کر رہے ہیں، تمہاری جدائی میں وہ مسلسل آنسو بہا رہے ہیں، تمھارے بغیر انٹرنیٹ پر بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہو رہے اور ہاں! تمہارا جگری دوست گیلانی ، ابھی تک تمہاری موت کا یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اس پر مصطفی صدیقی مجھے کہتے ہیں: ”انکل! آپ کو معلوم نہیں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام کی کس قدر بارش ہو رہی ہے۔ فرشتے میری قسمت پر رشک کر رہے ہیں۔ یہ محض تحفظ ختم نبوت کے کام کی برکت کا نتیجہ ہے۔ آپ سب دوستوں کو میرا پیغام دے دیں کہ آخرت میں کامیابی کا سب سے آسان راستہ صرف تحفظ ختم نبوت کا کام ہے۔ بے شمار قادیانیوں کو نہیں معلوم کہ وہ کس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں؟ ان بھولے بھٹکے قادیانیوں کو دعوت اسلام دینا ہمارا اوّلین فریضہ ہے، اس سے ذرا سی بھی روگردانی یا کوتاہی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ناراض ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا اس محاذ پر پہلے سے زیادہ محنت اور مستعدی سے کام کریں۔ آپ ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ پائیں گے۔“ میں سسکیوں اور ہچکیوں میں مصطفی صدیقی سے دست بستہ عرض کرتاہوں! یار مصطفی! روز قیامت اللہ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وسلمسے ہماری مغفرت کے لیے بھی درخواست کر دینا۔ اس پر مصطفی کہنے لگا: انکل! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ سب دوستوں کی مغفرت و بخشش کی ضرور درخواست کروں گا۔ پھر وہ قریب آ کر میرے کان میں سرگوشی کے انداز میں مسکرا کر کہتا ہے: میں آپ دوستوں کے بغیر جنت میں نہیں جاﺅں گا۔ پھر وہ سلام کہہ کر نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ اسی اثناءمیں قریبی مسجد سے تہجد کی اذان بلند ہوتی ہے۔ میں اسے قبولیت کی گھڑی تصور کرتا ہوں۔ اللھم صلی علیٰ محمد خاتم النبیین و خاتم المرسلین۔

4 comments:

  1. جزاک اللہ راجہ صاحب. بہت ہی ایمان افروز داستان تھی. شیئر کرنے کیلیے بے حد شکریہ.

    ReplyDelete
  2. مقالاتِ راحیل پر تشریف لانے کا شکریہ

    امید ہے آپ آئندہ بھی حوصلہ افزائی فرماتے رہیں گے

    ReplyDelete
  3. سلام،
    آپکی بلاگ تحریریں اتنی مشکل مشکل سی کیوں ہیں ....

    ( بوچھی) .

    ReplyDelete
  4. میرے خیال میں ایسا نہیں ہے
    بحرحال کوشش کروں گا آئندہ سہل مضمون یہاں پر پوسٹ کروں
    اصل میں مجھے بلاگ لکھنا بالکل نہیں آتا اس بلاگ کو تجرباتی طور پر شروع کیا تھا
    جیسے جیسے رہنمائی ملتی رہے گی اسے بہتر کرتا جاؤں گا


    یہاں آنے پر تہہ دل سے آپ کا مشکور و ممنون ہوں

    ReplyDelete