القلم ریسرچ لائبریری پروجیکٹ میں ہمارا ساتھ دیں ! القلم ریسرچ لائبریری کے رضاکار بنیں !!

Thursday, August 27, 2009

تیسرا کھلا خط بنام مرزا مسرور احمد . حصہ دوئم

یہاں ہم مسیح موعود کا دعویٰ لیتے ہیں، مرزا صاحب اس مسیح موعود کا معیار بیان کرتے ہوئے اپنی صداقت کے ثبوت میں فرماتے ہیں:۔

ثبوت نمبر۱: ۔مرزا صاحب (اپنے) بطور ملہم و مجدداور خلیفۃ الرسول لکھتے ہیں:

یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدا تعالےٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور سڑکوں کو خس و خاشاک سے صاف کر دیں گے اور کج اور ناراست کا نام و نشان نہ رہے گا اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست و نابود کر دیگا۔“ براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد۱/صفحہ601

اب آیت کی اس الہامی تشریح سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں

(۱) حضرت مسیح ابن مریم نازل ہوں گے لیکن یہاں غلام ابن چراغ بی بی دعویٰ کر رہے ہیں۔

(۲) دنیا ان کا جلال دیکھے گی یعنی حکومت !لیکن کیا دنیا نے مرزا غلام احمد کا جلال دیکھا؟ دنیا کو چھوڑو کیا ہندوستان نے انکا جلال دیکھا؟ اسکو بھی چھوڑو کیا انکے صوبہ پنجاب نے بھی انکا جلال دیکھا؟ یا انکے ضلع نے، یا انکی تحصیل نے حتیٰ کہ انکی اپنی ملکیت قادیان نے ہی جلال دیکھا ہو تو بتاو؟بلکہ دنیا نے تویہاں تک دیکھا کہ مرزا غلام احمدقادیانی ،غلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، نو آبادیاتی طاقت کےلئے اپنی خدمات اور اپنے خاندان کی خدمات کا تذکرہ کر کے ملکہ وکٹوریہ کے ایک کلمہ شکریہ سے ممنون ہونا چاہتا ہے( دیکھو ستارہ قیصریہ)۔ کیا یہی ایک نبی کا جلال ہوتا ہے؟ یا جلال کے معنی لغت میں نئے لکھے گئے ہیں؟

(۳) حضرت مسیح ابن مریم تمام راہوں کو صاف کر دیں گے لیکن مرزا صاحب سوائے اپنی اولاد کےلئے مال اکٹھا کرنے کی راہیں صاف کر نےکے اور کچھ نہیں کر کے گئے، اور ہاں ایک صفائی جو مرزا صاحب نے کی کہ جن دنوں طاعون کا زور تھا اپنے گھر کی نالیاں صاف کر کے اپنے ہاتھوں سے نالیوں میں فینائل ڈالا کرتے تھے (دیکھو سیرت المہدی، مصنفہ مرزا بشیر احمد،ایم اے،پسر مرزا صاحب) ۔

(۴) کج اور نا راستی کا نام و نشان نہیں رہےگااور مرزا صاحب اور انکے بعد کے دور میں کج اور ناراستی نے دنیا میں اپنے پنجے اور زیادہ مضبوطی سے گاڑ لئے ہیں ، باقی دنیا کی بات چھوڑو ، اپنی جماعت کو ہی دیکھ لو، بلکہ جماعت کے عام ممبروں کو چھوڑو، انکے عہدیداروں کو ہی صرف دیکھ لو، وہ کن راہوں پر ہیں؟ اگر یہی کج اور ناراستی دور کرنا کہلاتا ہے تو ایسا سمجھنے والے کو اسکا ایمان مبارک ہو؟

(۵) گمراہی کا تخم نیست و نابود کر دیگااب ذرا دنیا کو چھوڑو اپنی جماعت کو ہی دیکھ لو، دنیا تو بہت دور کی بات ہے تمہارے بہت سے عہدے دار بھی عبادت سے بھاگتے ہیں اور بچوں کی ہی نہیں بڑوں کی بھی حاضریاں لگتی ہیں آپکی عبادت گاہوں میں، اور مرکز کو جھوٹی رپورٹیں بھجوائی جاتی ہیں،تمہارے خلفاءپر موکد بہ عذاب قسمیں کھا کر لوگ کیا کیا الزام نہیں لگا رہے؟ اور انکے احترام کا یہ حال ہے کہ ایک مربی کا خلیفہ کے کمرے میں بلاوا آتا ہے تو دوسرا مربی پوچھتا ہے کہ کیا تیل کی شیشی جیب میں ہے؟آپکے سامنے ثابت ہورہا ہے کہ مرزا صاحب اپنی ہی بیان کی ہوئی تصریح کے مطابق مسیح موعود نہیں ہیں۔چونکہ مرزا صاحب آیت کی اپنی الہامی تشریح کے مطابق نہ تو جلال دکھا سکے ، نہ کج اور ناراستی دور کر سکے اور کفر و گمراہی کے اندھیرے انکے دعوےٰ کے بعد اور گہرے ہو چکے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے پیش کئے ہوئے معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہے اور نبی صرف کامیاب ہوتا ہے اور خدا تعالے نبی کوٰ کبھی ناکام نہیں ہونے دیتا،اس لئے مرزا صاحب اپنے دئے ہوئے معیار کے مطابق بھی دعوے میں جھوٹے ہیں ۔

ثبوت نمبر۲: ۔ جب مرزا صاحب نے مسلمانوں کے عقائد سے اتفاق کرتے ہوئے اپنے ملہم اور مجدد ہونےکا پروپیگنڈہ خوب کر لیا تواب آہستہ آہستہ اپنے قدم آگے بڑھانے شروع کئے اور اپنے آپ کو مثیل عیسیٰ علیہ اسلام قرار دے لیا، اور یہ دروازہ بظاہر صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لئے بھی کھول رہے ہیں۔یہ علیحدہ بات ہے کہ خود داخل ہونےکے بعد دوسروں کیلئے ہمیشہ کےلئے دروازہ بند کر دیتے ہیں۔زیرک اور داناعلمائے وقت نے جب دیکھا کہ مرزا صاحب ، حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی جگہ خود مسیح موعود اور مسیح ابن مریم بننے کی تیاری میں ہیں( کیونکہ مرزا صاحب سے پہلے بھی کئی جھوٹے مدعیان نبوت نے ایسے ہی طریقوں سے اپنے قدم نبوت کی طرف بڑھائے تھے) تومخالفت میں آوازیں اٹھنے لگیں، مرزا صاحب نے کچھ وقت حاصل کرنے کے لئے فوراً پینترا بدلا ، اور اعلان شائع کر دیا:

علمائے ہند کی خدمت میں نیاز نامہ“۔اے برادران دین و علمائے شرع متین! آپ صاحبان میری ان معروضات کو متوجہ ہو کر سنیں کہ اس عاجز نے جو مثیل موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے، جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں، یہ کوئی نیا دعویٰ نہیں جو آج ہی میرے منہ سے سنا گیا ہو بلکہ یہ وہی پرانا الہام ہے جو میں نے خدائے تعالےٰ سے پا کر براہین احمدیہ کے کئی مقامات پر درج کر دیا تھا ، جس کے شائع کرنے پر سات سال سے بھی کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا ہو گا، میں نے یہ دعویٰ ہر گز نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں جو شخص میرے پر یہ الزام لگاوے وہ سراسر مفتری اور کذاب ہے۔“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد۳/صفحہ۱۹۲)

جب میں نے یہ پڑھا تو پہلی بار میرے دل میں ایک واضح شک پیدا ہوا کہ مرزا صاحب کی جھولی میں ہیرے ہی نہیں بلکہ پتھر بھی ہیں۔ میرے لئے یہ ایسا حیران کن لمحہ تھا کہ ٹائٹل پر مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی موعود لکھا ہے او ر کتاب کے اندر ماننے والے تو بعد کی بات ، صرف خیال کر نیوالے ہی کم فہم ہیں نیز مفتری و کذاب ہیں، اور میرے کانوں میں (اور آپکے کانوں میں بھی) پیدائش سے ہی یہ ڈالا جا رہا ہے کہ مرزا صاحب مسیح موعود اور مسیح ابن مریم ہی ہیں۔ خیر مرزا صاحب کا اپنا یہ دعویٰ ہی انکے مسیح موعود ہونے کو باطل کر رہا ہے ، مرزا صاحب تسلیم کر رہے ہیں کہ انکو مسیح موعود اور مسیح ابن مریم سمجھنے والا مفتری اور کذاب ہے، لہٰذا مرزا صاحب مسیح موعود نہیں ہیں ۔

ثبوت نمبر۳ : ۔ مرزا صاحب نے اپنی دانست میں ہر قدم آہستہ آہستہ اور بڑا سوچ کربڑھایا، لیکن یہی قدم انکے خلاف ثبوت بھی بنتے گئے۔ مرزا صاحب ایک جگہ حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے اور اسکو اپنے حق میں بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے اس شعر ” تا چہل سال اے برادر من ۔ دور آں شہسوار مے بینم“ کی تشریح میں لکھتے ہیں: ” یعنی اس روز سے جو وہ امام ملہم ہو کر اپنے تئیں ظاہر کریگا،چالیس برس تک زندگی کریگا۔ اب واضح رہے کہ یہ عاجز اپنی عمر کے چالیسویں برس میں دعوت حق کے لئے بالہام خاص مامور کیا گیااور بشارت دی گئی کہ اسی برس تک یا اس کے قریب تیری عمر ہے، سو اس الہام سے چالیس برس تک دعوت ثابت ہوتی ہے، جن میں سے دس برس کامل گزر بھی گئے۔“ (نشان آسمانی،روحانی خزائن جلد 4/صفحہ 473)

یہ رسالہ۱۸۹۲ میں لکھا گیا ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب ۱۸۹۲ میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ چالیس سال کی عمر میں مرزا صاحب ایک خاص الہام کے ذریعہ مامور ہوئے اور یہ رسالہ لکھنے تک پورے دس برس بطور مامور کے گزر چکے ہیں اور تیس سال ابھی باقی ہیں ، یعنی انکی زندگی کا سلسلہ مزید ، کم و بیش ۱۹۲۲ تک مزید چلنا چاہئے تھا، لیکن ہوتا کیا ہے کہ مرزا صاحب بجائے مزید تیس برس کی عمر پانے کے سولہ سال بھی مزید پورے نہیں کرتے اور مئی ۱۹۰۸ میں فوت ہو جاتے ہیں اور جس پیشگوئی کا اپنے آپ کو مصداق بنا کر اپنی صداقت کے لئے خودپیش کرتے ہیں، وہ پیشگوئی بھی انکی ذات پر پوری نہیں ہوئی اور انکا اسی برس والا الہام بھی پورا نہ ہوا۔ اس لئے پہلی بات تو یہ کہ مرزا صاحب کا اپنی عمر کا الہام جھوٹا ہوا ،دوسرے پیشگوئی کا مصداق بننے کا دعویٰ غلط ثابت ہوا ۔ جسکا الہام جھوٹا ہو اور جو پیشگوئی اپنی صداقت کے لئے پیش کرتا ہے اور اسکا اہل ثابت نہیں ہوتا ، وہ مسیح موعود نہیں ہو سکتا۔پس مرزا صاحب مسیح موعود نہیں۔

No comments:

Post a Comment

بلاگ اسپاٹ پر فی الحال اردو کلیدی تختے کی تنصیب ممکن نہیں آپ سے التماس ہے کہ اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں بہت شکریہ، اظہاریہ نویس ۔